وطن سے عشق اور فدائی ۔ یاسر بلوچ

490

وطن سے عشق اور فدائی  

تحریر: یاسر بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

وطن سے عشق ایک گہری عاطفت ہے جو اپنے مادر وطن کے لئے محبت، قربانی، وفاداری، امیدواری اور خدمت کا احساس کرتا ہے۔ اس میں احساسات کی طاقت، وطن پر قربان ہونے کا جزبہ ، وطن کی سلامتی اولین ترجیح اور مستقل مزاجی شامل ہوتی ہیں۔وطن سے عشق انسان کے اندر وہ احساسات پیدا کرتی ہیں جو اُسے دوسرے عام انسانوں سے منفرد کر دیتی ہے وہ انسانیت کے ایک الگ سانچے میں ڈھل جاتا ہے ایک ایسا سانچہ جو اسکے شخصیت کو نکھارتی ہے اس سانچے میں ہر وہ خوبی سماء لیتی ہے جو اسے وطن سے نزدیک تر کرتی ہے اور اسکے اندر نرم مزاجی، محبت ، صبر اور مستقل مزاجی پیدا کرتی ہے وہ انسان جو وطن کے عشق میں مبتلا ہوتے ہیں جو وطن سے بے انتہاء محبت کرتے ہیں وہ ہی صرف اپنے وطن کے درد کو محسوس کرتے ہیں وہ وطن کی غلامی کو سمجھتے ہیں جب ان پر کوئی قابض ہو تو وہ اپنی غلامی کو سمجھتے ہیں انکو نا صرف اپنی غلامی کا احساس ہوتا ہے بلکہ قابض کی طرف سے ہونے والے ہر جرم اور ظلم کا ادراک ہوتا ہے جب انکو اپنے اوپر ہونے والے ظلم اور اپنی مظلومیت کا ادراک ہوتا ہے تو وہ حقیقی عشق کی طرف لوٹ جاتے ہیں حقیقی عشق ازلی ہوتا ہے جو دل، روح اور عقل کو شامل کرتا ہےاب یہ اپنے زندگی کے محدود حدود سے نکل کر ایک حقیقی مقصد کی طرف گامزن ہوتے ہیں اور وہ زندگی میں شامل کچھ عوامل کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ جیسے مادی تناسب، مالی حالات، خاندانی معاملات، فردی معاملات ، جسمانی لطفات اور مادی خواہشات ، مادی سوچ، سامراجی تعاملات اور دنیاوی مقاصد ، شہوت، متعدد رابطوں، جسمانی تفریحات، مالی امکانات اور دنیاوی خوشیوں ،نرگسیت ، گروہ بندی وغیرہوطن سے عشق کا احساس ہر شخص کے لئے مختلف ہوتا ہے، لیکن یہ ایک اہم عشق ہے جو انسانیت کے رابطوں کو مضبوط بناتا ہے جو اپنے ہم خیال اور اور ہم فکر سنگتوں کو یکجا کرتاہے انکے درمیان ہم آہنگی کو پروان چڑھاتا ہے اور انکو ایک کارواں بنادیتا ہے اور وہ ملکر اپنے وطن کے دشمن کو نیست ونابود کردیتے ہیں

یہ وطن کا عشق ہی ہے جس نے شہید ثانی مجید جیسے جانثار پیدا کیے جو شال کے گلیوں میں یزیدی لشکر پر موت کا سایہ بنارہا اپنے گوریلہ حکمت عملیوں سے دشمن کی نیندیں حرام کرتا رہا یہ وطن کا عشق ہی ہے جس نے باز خان مری (درویش)جیسے دیوانے پیدا کیے جو عاجزی میں اپنی مثال آپ تھا جس نے شال میں دشمن کے ٹھکانے پر فدائی حملہ کرکے سینکڑوں کو نیست ونابود کردیا یہ وطن کا عشق ہی ہے جس نے لمہ یاسمین اور شہید استاد اسلم کے گھر شہید ریحان جیسے نڈر اور محنتی فرزند پیدا کیاجس نے چینی سامراج کے انجینئرز کو دالبندین میں کاری ضرب لگایا جس نے چائنہ اور پاکستان کے بنیادیں ہلا دی اور فکر اسلم کو ہر بلوچ کے سینے میں بسا دیا یہ وطن کا عشق ہی ہے جس نے ازل ، رازق اور رئیس جیسے فدائیوں کو جنم دیا جنہوں سے چائینز کونسلیٹ پر فدائی حملہ کرکے دشمن پر برس پڑے چائنہ کو بلوچستان پر پاکستان قبضہ گیریت کو مضبوط کرنے کی بھرپور جواب دیاگیا یہ اپنے طرز کا جدید نوعیت کا حملہ تھا جس نے دشمن کو لمحہ فکریہ میں ڈال دیا یہ وطن کا عشق ہی ہے جس نے فدائی فرید جیسے سنگت سے ہمیں آشنا کروایا جس نے خودکش سے استاد اسلم کو بچانے کے لئے اپنے آپ کو آگے کیا اور جام شہادت نوش کرگئے یہ وطن کا عشق ہی ہے جس کی وجہ سے منصف ، کچلول، اسد اور حمل جیسے بہادر فرزندوں نے گوادر پی سی ہوٹل میں چائینز اور پاکستانی فورسز کو دن کے تارے دکھائے اور بہادری سے پورے ایک دن اور رات دشمن کے ساتھ لڑتے رہے دشمن کو شکست دے کر آخری گولی کے فلسفے پر گامزن ہوئے یہ وطن کا عشق ہی ہے جس کی وجہ سے چار یار سلمان حمل ،تسلیم، شہزاد اور سراج نے پاکستانی اقتصادی گڑ اسٹاک ایکسچینج پر فدائی حملہ کر کے ریاستی معیشیت کو گھٹنوں بٹھا دیا دیکھتے ہی دیکھتے سرمایہ کاروں نے پنے تمام تر سرمائے نکالنا شروع کردیے اور ریاست کو اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری میں شدید نقصانات اٹھانا پڑےیہ وطن کا عشق ہی ہے جس کےلئے سربلند جیسے شہزادے امر ہو جاتے ہیں کم عمری میں ہی وطن کےلئے قربان ہونے کو تیار ہونے والا سرمچار سربلند اپنے باری کا انتظار کرتے کرتے آخر کار اپنی باری آنے پر مسکراتے ہوئے سربلند کمانڈر کو یہ کہہ کر الوداع ہوتا ہے کہ آپ نہیں میں آپ سب پر قربان ہو جاؤں انہی الفاظ کے ساتھ سربلند چینی قافلے پر فدائی حملہ کرتا ہے۔

یہ وطن کا عشق ہی ہے جس نے لیاری کے گلیوں سے گنجل جیسے شیر کو پیدا کیا جو کہ آپریشن گنجل کا آپریشن کمانڈ تھا آپریشن گنجل میں 16 انتہائی ٹرین اور جانباز سرمچار شامل تھے جو کہ 2 حصوں میں تقسیم تھے الفا یونٹ اور براؤ یونٹ جنکا ٹارگٹ نوشکی اور پنجگور میں پاکستانی ملٹری کے ہیڈکوارٹرز تھے 16 سرمچاروں نے بڑے بہادری سے ان پر حملہ کرکے 200 سے زائد دشمنوں کو ہلاک کیا اور 72 گھنٹوں تک ان پر قابض رہے اور کچھ سرمچار آخری گولی کے فلسفے پر گامزن ہوگئے اور امر ہوگئے آپریشن گنجل کو بلوچ تحریک میں انتہائی کامیاب اور خطرناک حملہ قرار دیا جاتا ہے یہ وطن کا عشق ہی ہے جن نے ہمیں شاری جیسی شیرزال سے واقف کروایا جسکی بلوچ تاریخ میں پہلی فدائی بلوچ عورت ہے جس پر پورا قوم فخر محسوس کرتی ہے شاری بلوچ اعلی تعلیم یافتہ ، ایک استاد اور دو بچوں کی ماں تھی اس ماں نے اپنی سرزمین (ماں ) کی درد کو محسوس کی اپنی غلامی کو محسوس کی اور اس غلامی سے نجات کے لئے جہدوجہد میں شامل ہوگئی وہ کہتی تھی کہ ہماری سب سے بڑی مسئلہ ہماری غلامی ہے اگر ہم اس سے نجات پالیں تو ہم اپنے ثانی مسئلوں پر خود قابو پالینے شاری بلوچ نے کراچی میں چائینز کو فدائی حملے میں نشانہ بناکر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی اور ہمیشہ کے لئے امر ہوگئی یہ وطن کا عشق ہی ہے جس نے توتک جیسے علاقے سے فدائی سمیعہ جیسی شیرنی کو جنم دی سمیعہ بلوچ پچھلے 7 سالوں سے تحریک سے وابستہ رہی جہاں وہ میڈیا اور صحافت کے فرائض سر انجام دیتی رہی وہ مختلف آرٹیکلز لکھتی اور مختلف آرٹیکلز کو براہوی میں ترجمہ کرتی وہ خود صحافت کی طلبہ تھی سمعیہ بلوچ کو دوسری فدائی بلوچ عورت ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس نے گزشتہ دنوں تربت میں آئی ایس آئی کے قافلے پر فدائی حملہ کی۔

سمیعہ بلوچ انتہائی معنتی جہدکار تھی وہ اپنی کام میں انتہائی دلچسپی لیتی ہے آپ نے چار سال قبل فدائی کرنے کا خواہش ظاہر کی لیکن اس عمل کو کرنے کے لئے آپ کو وقت دیاگیا تاکہ آپ سوچیں اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں لیکن آپ ڈٹے رہے چٹان کی طرح کہ اس پاک مقصد کے لئے میں آگے آؤنگی میں گلزمین کے لئے فدائی کرونگی میں دشمن کا سامنا کرونگی میدان میں آج زمین کو میری ضرورت ہے یہ جہد ہمارا ہے ہم سب کا ہے ہم خود کو کبھی بھی اس سے جدا نہیں کرسکتے ہیں کل شاری تھی آج میں ہوں کل کوئی اور ہوگی یہ جہد جاری رہیگی آزادی تک جاری رہیگی اور ہم سرخ روح ہونگے

کہتے ہیں کہ فدائی سمعیہ بلوچ فدائی ریحان بلوچ کی منگیتر تھی سمعیہ بلوچ اپنی ایک آرٹیکل میں کہتی ہے کہ جب ریحان جان نے مجھ سے کہا کہ میں ایک سفر میں ہوں جہاں میں آپکو ایک نارمل زندگی نہیں دے سکتا وہ خوشیاں نہیں دے سکتا جو تم چاہتی ہوں تو سمیعہ بلوچ نے جواب دی کہ میں بھی اس سفر کا مسافر ہوں میں بھی آپ کے ساتھ ہوں میں بھی گلزمین کا حصہ ہوں اور میں آپ کے ہر عمل کے ساتھ ہوں آخر تک ۔۔۔۔۔

اور ایسا ہی ہوا دونوں ساتھ رہے اور دونوں امر

ہوگئے

تحریک نے دونوں کو ایک ایسے خوبصورت رشتے میں جوڑ دیا جسکا کوئی مثال نہیں ملتا ایک ایسا عشق جس نے دنیا میں موجود تمام تر عشق کے داستانوں کو پیچھے چھوڑ دیا ایک ایسا خوبصورت اور پاک جوڑا جو وطن کے عشق میں امر ہوگئے۔

شاری بلوچ اور سمعیہ بلوچ کی قربانی بلوچ تحریک کے لئے عظیم قربانی ہیں اور ہر اس فرسودہ سوچ اور نظریے کے جواب ہیں جو ریاست کی طرف سے نافذ کی جارہی ہیں بلوچ سماج اور تحریک میں اب کہی بلوچ خواتین کے دستے منظم ہورہے ہیں اور بلوچ مردوں کے برابر تحریک میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں

بلوچ خواتین کی تحریک ناصرف اس خطے بلکہ دنیا میں بسنے والے تمام مظلوم اقوام کے لئے ایک مثال ہے

یہ تحریک ہمیں کیسے کیسے شخصیات سے متعارف کروا رہا ہے کیسے کیسے داستانیں رقم کررہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں