نہ برداشت ہونے والی جنگ – جورکان بلوچ

451

نہ برداشت ہونے والی جنگ

تحریر: جورکان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جہاں ہر قدم قربانی دینا مانگتا ہے اور بلوچ قوم بنا جان و مال کی پرواہ کیے اپنے جانوں کا نزرانہ پیش کررہی ہے اور ہر ایک قدم پہ تاریخ رقم کررہی ہے۔ وطن کیلئے قربان ہونے کا جزبہ شاید ہی ایک عام انسان کیلئے پاگل پن یا بیوقوفی ہو مگر ایک شعور سے لیس انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک کتنی بڑی قربانی ہے اور شعور کی انتہا یہی پہ ختم ہوتی ہے کہ یہی انسان اپنے جان کا نزرانا پیش کرتے ہوئے بھی اپنے ہونٹوں پہ یہی ورد کرکے کہتی ہے کہ ابھی میں نے کچھ نہیں کیا، ابھی ہم نے کچھ نہیں کیا ابھی ہم نے اور بہت سے قربانیاں دینی ہیں۔

فدائیں سنگت سمعیہ بلوچ انہیں شعور سے لیس، غلامی کے احساس واقف، اپنے ذمہ داری سے واقف رہشونوں میں سے ایک رہشون ہے، میں سمو کیلئے “تھی” کا لفظ اس لئے استعمال نہیں کروں گا کیونکہ وہ تاابد ہمارے ساتھ رہیگی اور ھماری رہشون ہوکر ہمیں راستہ دکھائے گی۔

سمعیہ بلوچ جس کا پورا خاندان اسی غلامی کے جبر کے لپیٹ میں آیا تھا، جس کے منگیتر شیہد فدائی فدائی ریحان بھی جسمانی حوالے سے اس سے بچھڑ چکے تھے، شہید اسلم کی شہادت کو اپنے دور میں دیکھ چکی تھی تو ان حقائق سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ ان واقعات نے انہیں کس حد تک مھکم اور شعور سے لیس کیا تھا ، ہم اگر جتنا چائیں سمو کے بارے میں لکھیں اور اس کے بارے میں بات کریں مگر ہم اس مقام پہ پہنچ ہی نہیں سکیں گے جہاں پر سمو کی شعور شروع ہوتی ہے۔ واجہ برزکوہی شاری پہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاری پہ بات کرنے یا شاری پہ لکھنے سی پہلے ہمیں شاری کے سوچ تک پہنچنا ہوگا ، اس کے آنکھوں کے زاویے سے چیزوں سے دیکھنا ہوگا مگر ہم اس مقام پہ ہیں ہی نہیں جہاں ہم شاری اور سمعیہ پہ بات کرسکیں یا ان عظیم وطن کے پاسبانوں پہ کچھ لکھ سکیں۔

جس انسان نے ظلم تکلیف صرف دیکھی ہی نہیں بلکے اس درد کو اپنا سمجھا ، جس نے پورے قوم کے غلامی کے احساس کو اپنے جسم کے ہر ایک رگ میں شامل کیا، جو انسان شعور سے اتنا لیس ہو کہ اس کا ہر ایک قدم اس کو وطن اور قوم پہ ہونے والی ظلم سے آشنا کرائے تو اس انسان کے ہاں جان کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔

اس بات پہ کوئی شک ہی نہیں بہت سے لوگ جو دشمن کے پروپیگنڈے اور پھیلائی ہوئی نوآبادیاتی ڈسکورس کے لپیٹ میں ہوں یا دشمن کے آکہ کار ہوں کو یہ قربانیاں اور یہ راستہ ہضم نہ ہو مگر اس بات کا فیصلہ تو تاریخ خود کرے گی کہ کون صیح اور کون غلط تھا مگر بحیثیت بلوچ ہم دیکھیں تو ہمارے پاس کوئی اور راستہ ہی نہیں ہے اس راستے سے انکار دوسرے الفاظوں جہد سے راہ فرار اختیار کرنا ہے۔

ان وطن کے پاسبانوں کو نہ تو مرنے کا شوق ہے اور نہ ہی ان کو اپنی زندگی پیاری نہیں کہ جو اس راستے پر جانے پر مجبور ہیں اور کچھ یہ بھی کہنے سے نہیں کتراتے ہیں کہ یہ تو مہم جو ہیں جو بنا کچھ سوچے سمھجے ایسے ہی چل پڑے ہیں مگر ہم معروضی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ شعور سے لیس وہ انسان ہیں جو اپنا ہر ایک سانس وطن کے نام سے لیتے ہیں، جو غلامی کے احساس سے اتنا واقف ہیں کہ بنا قربانی کے انکی زندگی ایک ایسی اذیت بن جاتی ہے جس کو گزارنا عام کے انسان کے موت کے خوف سے بھی بدتر ہے، یہ وہ عظیم انسان ہیں جو اپنے سرزمین سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ ان کے ہاں موت اور زندگی دونوں کی معنی بدل جاتے ہیں۔

کچھ لوگوں کو اس چیز کا مسئلہ نہیں ہے کہ بلوچ فرزند نے قربانی دی ہے ان کا مسئلہ یہ ہے کہ بلوچ عورت نے کیوں قربانی دی ہے، یہ وہی لوگ ہیں جو یہ کہتے نہیں تکھتے کہ عورت کو برابری کے حقوق دو، عورت مرد سے کیونکر کمتر تصور کیا جاتا ہے مگر یہی برابری جب جنگ کے میدان میں آتی ہے تو ان کا مسئلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ایک انٹریو میں جب ایک مرد عورت سے سوال پوچھتا ہے کہ آپ ایک فیمینسٹ ہیں جو عورت کے برابری کے منوگر ہیں لیکن جب یوکرین میں جنگ چڑھ گئی تو آپ اس بات کہ کیوں حق میں تھے عورت اور بچوں کو یوکرین سے نکالا جائے اور انہیں دوسرے ملکوں میں رہنے دیا جائے مگر مردیں جنگ کریں تو کیا آپ عورت کے برابری کے باقاعدہ خلاف نہیں ہیں؟ جب عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں انسان ہیں، عورت وہ کام کرسکتی ہیں جو مرد کرتا ہے تو وہ کام جنگ کیوں نہیں ہوسکتی؟ تو یہی سوال اگر ان سے پوچھا جائےتو یہ کیا جواب دیں گے؟

وین پیٹرک اپنی کتاب understanding revolution میں لکھتے ہیں انقلابی وہ کام کرکے دکھاتے ہیں جن کا ہم صرف خواب دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح وہ بہت سے ایسے کام بھی کرکے دکھاتے ہیں جن کا ہم خواب بھی نہیں سکتے اور اس عمل کو ہضم کرنا ہماری لئے مشکل بن جاتا ہے اور یہی مشکل اور ہضم نہ کرنا ہمیں اضطراب کا شکار کرتا ہے اور اسی اضطراب کی وجہ سے ہم لاشعوری طور پر اس عمل کی مخالفت کرتے ہیں۔

بقول ڈاکٹر برمش کے کہ اگر ڈرپوک ہو تو صاف الفاظ میں قبول کرو کہ ہاں بھئی میں ڈرپوک ہوں، نہیں ہوتا ہضم مجھ سے ان کی قربانی، نہیں دیکھ سکتا میں ایسے انسان کو جو شعور سے اتنا لیس ہو کہ جسے اپنی زمین کیلئے جان قربان کرنے میں بھی ہچھکچھ نہ ہو، نہیں دیکھ سکتا میں ایک ایسے حقیقت کو جس کا میں خواب خواب بھی نہیں دیکھ پاتا۔

بلوچ گلی ڈنڈا نہیں کھیل رہے کہ ہم کہے ہمیں تکلیف بھی نہ ہو اگر آذادی بھی مل جائے، بلوچ قوم اپنی آذادی کی جنگ لڑ رہی اور آذادی کی جنگ بنا قربانی کے ایسے ہیں جیسے پاکستان کی آذادی۔ آذادی کیلئے جانے قربان کی جاتی ہیں، پرسکوں زندگیاں چھوڑ کر جنگ کے میدان میں لڑنے جانا پڑتا ہے، Chilean gardener ایک جگہ پہ لکھتی ہیں کہ “During revolution, green plant don’t get enough water” مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں آذادی بھی ملے اور ہمیں تکلیف بھی نہ ہو مگر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آذادی کی جنگ قربانی مانگتی ہے اور بلوچ قوم قربانی دینے سے کتراتا نہیں ہے۔

آخر میں یہی بات کہوں گا کہ ” If you cannot bear an act of revolutionaries in the era of colonialism, it does not mean that the act is unbearable but you are not much prepared and conscious to be included among them


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں