‘ممکن ہے ٹائٹن ، ٹائیٹینک کے ملبے میں الجھ گئی ہو’

289

جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، شمالی بحر اوقیانوس کے گہرے پانیوں میں اس سب میرین کی تلاش کا کام تیز کر دیا گیا ہے، جو اتوار کی صبح پانچ سواروں کو لے کر سمندر میں کہیں غائب ہو گئی ہے۔ یہ پانچ سوار 1912 میں غرقاب ہونے والے بحری جہاز ٹائیٹینک کی باقیات دیکھنے ایک مطالعاتی اور سیاحتی وزٹ پر اس سب میرین میں سوار ہوئے تھے، جسے بےحد جدید اور کٹنگ ایج قرار دیا جا رہا ہے۔

امریکی کوسٹ گارڈ حکام کے مطابق کئی ملکوں کے بحری جہاز اور جنگی طیارے شمالی بحر اوقیانوس میں اب تک دس ہزار سکوائر میل یعنی تقریبا چھبیس ہزار سکوائر کلومیٹر رقبہ چھان چکے ہیں۔ لیکن تاحال لا پتہ ہو جانے والی سب میرین کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ ٹائٹئن نامی سب میرین کی تلاش جاری رکھیں گے۔ اس آبدوز میں دو دن کی آکسیجن باقی رہ گئی ہے۔

یہ ایک مشکل مشن ہے اور کئی ٹیمیں مل کر اسے انجام دے رہی ہیں۔ تلاش کا کام کرنے والی ٹیم کے انچارج کیپٹن جیمی فریڈرک نے بوسٹن میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ منگل کی دوپہر تک سب میرین کے عملے کے لئے اکتالیس گھںٹوں کی آکسیجن باقی رہ گئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ زیر آب ایک روبوٹ نے ٹائیٹینک جہاز کے ملبے والے علاقے میں اس آبدوز کی تلاش شروع کر رکھی ہے اور امدادی سامان اس سمندری علاقے میں پہنچانے کا کام تیز کیا گیاہے جہاں سب میرین کے مل جانے کا امکان ہے۔ سمندری علاقے میں آبدوز کی تلاش کے لئے امریکی فوج کے تین سی ون تھرٹی طیاروں کی مدد بھی لی گئی ہے۔

حکام کے مطابق کاربن فائبر سے بنی ہوئی سب میرین کو اتوار کی رات واپس آنا تھا، لیکن اس کے واپس نہ پہنچنے پر تلاش کا کام شروع کیا گیا۔

آبدوز کے پائلٹ اوشئن گیٹ نام کی اس کمپنی کے سی ای او ہیں ، جس کی ملکیت ٹائیٹن نامی سب میرین تھی۔ سب میرین میں سوار باقی چار افراد میں ایک برطانوی مہم جو ہمیش ہارڈنگ ، پاکستان کے ایک کاروباری خاندان کی دو شخصیات اور ٹائیٹینک کے ملبے پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر شامل ہیں۔

اتوار کو صبح چھ بجے جب یہ سب میرین اپنے سفر پر روانہ ہوئی تو اس میں چھیانوے گھنٹے کی آکسیجن سپلائی موجود تھی۔ اوشئن گیٹ ایکسپیڈیشن کمپنی کے ایک ایڈوائزرڈیوڈ کانکینن کا کہنا ہے کہ آبدوز کی آکسیجن جمعرات تک ختم ہو جائے گی۔

سی بی ایس نیوز کے صحافی ڈیوڈ پوگ نے پچھلے سال اسی سب میرین میں ایسا ہی سفر کیا تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ سب میرین میں بیرونی رابطے کے دو سسٹم ہیں۔ ایک ٹیکسٹ میسیج کا سسٹم، جو سطح آب پر موجود بحری جہاز کو پیغام بھیج سکتا ہے اور دوسرا سیفٹی پنگ  کا نظام ، جس کے تحت خود کار طور پر سب میرین سے ہر پندرہ منٹ پر پنگ کیا جاتا ہے، جس سے پتہ چلے کہ سب میرین کام کر رہی ہے۔

یہ دونوں ہی نظام سب میرین کے سمندر کی سطح کے نیچے جانے کے ایک گھنٹہ پینتالیس منٹ تک کام کرتے رہے۔

ڈیوڈ پوگ نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ اس کے دو ہی مطلب ہو سکتے ہیں۔ یا تو سب میرین کے سسٹم بند ہو گئے یا اس میں سوراخ ہو گیا اور سب میرین پھٹ گئی ۔ دونوں ہی ممکنات انتہائی مایوس کن ہیں۔

پوگ کے مطابق، سب میرین میں ریت کے تھیلے، لیڈ پائپ اور ہوا بھرنے والے غبارے سمیت سات بیک اپ سسٹمز موجود ہیں ۔ ایک ایسا بیک اپ سسٹم بھی ہے جو اس صورت میں بھی کام کر تا ہے، جب سب میرین پر موجود ہر شخص بے ہوش ہوچکا ہو۔

یونیورسٹی آف ایڈیلیڈ کے ڈائریکٹر ایرک فیوسل کا کہنا ہے کہ سب میرین کا بیرونی سطح سے رابطہ منقطع ہونے کی کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے کوئی ایسی آگ لگی ہو، جس سے کریو بے ہوش ہو گیا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ٹائٹن نام کی یہ جدید سب میرین ، سال 1912 میں غرق ہو جانے والے بحری جہاز ٹائیٹینک کی باقیات میں الجھ کر پھنس گئی ہو۔

ایرک فیوسل کہتے ہیں ، ‘میں یہ سوچنا چاہتا ہوں کہ ٹائٹن کی بجلی چلی گئی ہوگی، لیکن وہ پھر بھی ابھر کر سطح سمندر پر واپس آسکتی تھی۔ جہاں اسے امدادی ائیر کرافٹس اور ریسکیو شپس کی مدد سے تلاش کرنا کچھ مشکل نہ ہوتا’ ۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ریسکیو کا کام بھی آسان نہیں۔