بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں شریک وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے ایک بار پھر عدالتوں سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ افراد کو رہا کرنے میں کردار ادا کریں۔
گذشتہ روز پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء منظور پشتین اور علی وزیر نے بھی احتجاجی کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔ اس موقع پر سیاسی و سماجی کارکنان کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
منظور پشتین نے کہا کہ حکومتی اہلکار لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔ ہزاروں ماؤں بہنوں کے آنسوؤں کی کوئی قیمت نہیں۔ ہزاروں گمشدہ اور زندہ لوگوں کی کوئی قیمت نہیں، لیکن ایک فوجی جنرل کے گھر کی قیمت ہے۔ حکام نے متعدد بار جبری گمشدگیوں کا مسئلہ حل کرنے کا وعدہ کیا لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔
منظور پشتین نے کہا کہ 9 مئی کو تحریک انصاف کے ارکان کے مظاہرے کے دوران ایک شخص لاہور سے کور کمانڈر کے گھر سے مور چوری کرتا ہے تو پولیس مذکورہ مور کو برآمد کرنے سمیت ملزم کو حراست میں لیتا ہے۔
منظور پشتین نے مزید کہا “مور لاپتہ ہونے کے دو دن بعد ملا تھا۔ مور کو غائب کرنے والے کو بھی سزا دی گئی۔ وجہ یہ تھی کہ متاثرہ ایک فوجی جنرل تھا۔ ہم جو پشتون اور بلوچ ہیں، ہزاروں لاپتہ افراد کی قدر نہیں ہے۔ ہمارے لیے صرف فوجی آپریشن، ماورائے عدالت قتل اور جنگ ہے۔
اس موقع پر احتجاج کیمپ میں موجود جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے پیاروں کی جبری گمشدگی کے واقعات بیان کیے اور اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔
جبکہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ، پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء علی وزیر نے بھی اظہار خیال کیا۔
بلوچستان سے دو دہائیوں کے دوران ہزاروں افراد جبری طور پر لاپتہ کردیئے گئے جبکہ لاپتہ ہونے والے متعدد افراد کی مسخ شدہ لاشیں بھی ملی ہے۔ وی بی ایم پی کے اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار افراد کی مسخ شدہ اب تک مل چکی ہے۔
بلوچ و پشتون سیاسی و سماجی حلقے ان جبری گمشدگیوں میں پاکستان فوج کو برائے راست ملوث قرار دیتے ہیں۔
پاکستان فوج و حکومت ان الزامات کو رد کرتے ہیں تاہم 2019 میں اس وقت کے پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ‘ہم نہیں چاہتے کہ کسی کو طاقت کے ذریعے غائب کیا جائے لیکن جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے’۔
اس کے علاوہ 2011 میں حکومت پاکستان نے جبری گمشدگیوں کے معاملے کو حل کرنے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا تھا جس کا کہنا ہے کہ اس نے اب تک تقریباً 6 ہزار افراد کے کیسز حل کیے ہیں۔
پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ستمبر 2022 میں کہا تھا کہ جبری گمشدگیاں ریاست کے لیے باعث شرم ہے اور انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاملے کے لیے کابینہ کے متعدد وزرا پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
لیکن لاپتہ بلوچوں کی تنظیم کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے 45 ہزار سے زائد بلوچوں کو لاپتہ کیا ہے جبکہ مذکورہ تنظیم کا کہنا ہے کہ جہاں ایک شخص رہا ہوتا ہے وہی مزید چار افراد جبری لاپتہ کردیئے جاتے ہیں جس کے باعث لاپتہ افراد کی تعداد میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔
بلوچستان میں ہر سال 9 جون کو جبری لاپتہ افراد کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس روز جبری گمشدگیوں کیخلاف احتجاجی ریلی و مظاہروں اور سیمینار کرنے سمیت سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر آگاہی مہم چلائی جاتی ہے۔