علم، رویہ اور تخلیق کاری – جورکان بلوچ

282

علم، رویہ اور تخلیق کاری

تحریر: جورکان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک غلام سماج ویسے تو برائیوں اور نفسْیاتی بیماریوں کا گڑھ ہوتا ہے، وہاں قسم قسم کی برائیاں اور نفسْیاتی بیماریاں موجود ہوتی ہیں اور اس کو اپنے پنجوں میں لئے ہوتے ہیں لیکن یہی غلام سماج کو اگر شعور آ جاتا ہے کہ وہ غلامی کے دور سے گزر رہی ہے تو وہ غلامی کے خلاف جدوجہد شروع کر دیتی ہے، وہاں علم کے دیوانے گھوم رہے ہوتے ہیں ، کتب بینی کو فروغ دیا جاتا ہے، دنیا کی انقلابی تحریکیں، فلسفہ، سیاسیات اور دیگر علوم کو کھنگالا جاتا ہے۔

ایک غلام سماج کی سب سے اہم ضروریات میں علم، رویہ اور تخلیق کاری شامل ہے، جو غلامی سے آذادی تک کے سفر کیلئے ضروری ہیں۔ علم اس لئے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ غلام سماج کو اپنی غلامی کے زنجیریں توڑنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے باشندے دنیا کے علوم سے واقف ہوں، غلامی کے احساس کو محسوس کرتے ہوں اور دوسروں کو بتانے کیلئے ان کے پاس علم ہو۔ اپنے تاریخ سے واقف ہونے، نوآبادیاتی سماج کو پہچاننے اور قبضہ گیر کے سْیاسی اور نفسْیاتی ہتھکنڈوں سے واقف ہونے کیلئے علم ہی واحد کردار ادا کرتی ہے۔
جب علم حاصل کی جاتی ہے تو اس پہ عمل کرنا پڑتا ہے اور یہ عمل رویہ کہلاتی ہے۔ اپنے آپ کو جاننے کے بعد انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو بھی بتائے کہ وہ کون ہیں، کس طرح سے غلامی کی زنجیروں میں جھکڑے ہوئے ہیں اور ان زنجیروں کو کس طرح سے توڑا جاسکتا ہے۔

لوگوں تک اپنی بات پہنچاننے اور ان کو قائل کرنے میں علم کے بعد اگر کچھ معنی رکھتا ہے تو وہ رویہ ہے جس کے بغیر علم کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ سامنے والا انسان آپ کے رویے سے ہی آپ کے پیغام کا فیصلہ کرے گا کہ آیا یہ صیح کہہ رہا ہے یا نہیں، علم کو رویہ ہی متاثر کرتی ہے، اگر کسی انسان کا رویہ ہی صیح نہیں ہے تو کون اس کی باتوں کو صحیح سمجھے گا۔

بعض اوقات ہم دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے پاس علم تو ہے کہ ہماری تاریخ کیا ہے، ہم غلام کیوں ہیں، کس طرح سے ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، کس طرح سے ہمیں ذہنی غلام بنایا جارہا ہےاور ان سب کا حل کیا ہے مگر پھر بھی یہ علم صرف علم ہی تک محدود رہتی ہے، ہمارے کردار اور رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ علم کی سب سے خوبصورت بات یہی ہے کہ یہ انسان کو اندر سے جنجھوڑتی اور اسے کچھ نہ کچھ کرنے پہ مجبور کرتی ہے۔

جب کسی انسان کو پتہ چلتا ہے کہ وہ غلام ہے تو یہ غلامی کا احساس اس میں ایک اضطراب پیدا کرتی ہے اور وہ اس اضطرابی کو کسی طرح ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب ہم اپنے آپ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب ہمارے پاس علم نہیں تھی اور آج جب ہمارے پاس علم ہے تب بھی ہمارا رویہ اور کردار پہلے جیسا ہی ہے۔ صرف یہ جاننا کہ کب کیا ہوا تھا، کس فلسفی نے کیا کہا تھا، کس ملک نے آذادی کی جنگ کس طرح سے لڑی تھی، کس لکھاری نے کیا لکھا تھا کافی نہیں ہے یہ علم تب کار آمد ہوگی جب ہمارا کردار اس کی عکاسی کرتا ہو۔ اس علم کو اپنے رگوں میں شامل کرلیں اور جب ہمارے رگوں میں خون کی طرح یہ علم گردش کرے اور ہمیں سیاست کرنے کے قابل بنائے تب جاکر ہم اس سے فائدہ حاصل کرسکیں گے اور آذادی کے پیغام کو ہر جگہ، ہر کسی کے پاس پہنچا سکتے ہیں۔

غلام سماج کی جو تیسری اہم ضرورت ہوتی ہے وہ ہے تخلیق کاری یا تخلیقی صلاحیت، کسی بھی خیال یا علم کو استعمال کرکے اس سے کوئی نیا خیال یا نئی چیز تخلیق کرنے کو تخلیق کاری یا تخلیقی صلاحیت کہتے ہیں۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ غلام سماج کو غلامی کی زنجیروں سے نکالنے کیلئے علم اہم کردار ادا کرتی ہے جس طرح فینن، گوگی، ڈاکٹر چی، کنفانی اور بہت سے دانشوروں نے اپنے سماج میں رہ کر اپنے سماج کے مطابق اپنے سماج کے برائیوں اور غلامی سے چھٹکارا پانے کے حل بتائے بلکل اسی طرح ہمیں بھی چاییے کہ ہم اپنے سماج میں رہ کر، اپنے سماج کا جائزہ لیکر اپنے سماج کے برائیوں اور قبضہ گیری کے خلاف اور اس سے آذادی حاصل کرنے کے طریقے اور حل بتائیں یا نئے نئے خیالات تشکیل دے کر اپنے آپ کو اور اپنے لوگوں کو سمجھائیں۔ یہ نئے خیالات کسی بھی شکل میں ہوں مگر ہماری تخلیقی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہیں۔

ہر ایک سماج کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ان تقاضوں کو دیکھ کر ، پرک کر اور ان کے مطابق ہی ان کے حل دئیے جاسکتے ہیں، تو ہمیں چاییے کہ اپنے سماج کو دیکھ کر ہی چیزیں تخلیق کریں اور اپنے سماج کو فائدہ دینے کی کوشش کریں۔

انہیں تینوں ضروریات کو ایک نوآبادیاتی معاشرے کے فرد کو جاننا چاییے اور حالات کے تقاضوں کو دیکھ کر اپنی زندگی انہیں کےمطابق رنگ دینا چائیے تب جاکر وہ سماج ایک بہتر طریقے سے اپنے غلامی کی زنجیریں توڑ سکےگی اور اپنا مقصد پانے میں کامیاب ہوسکے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں