سندھی نوجوان مزاحمتی جدوجہد کو مضبوط اور منظم کریں۔ ایس آ ر اے

733

سندھودیش روولیوشنری آرمی کے رہنماء معشوق قمبرانی نے سندھی قوم کے لیئے وڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کافی وقت سے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر ہماری تنظیم کے خلاف ریاستی ایجنسیوں اور اس کے ایجنٹوں کی ایک منظم نیٹ ورک کی جانب سے نفسیاتی پروپیگنڈا کی جاتی رہی ہے حالانکہ اِس سے پہلے ہم نے کبھی ریاستی ایجنسیوں، ان کے ایجنٹوں، حکومتی نمائندوں اور سی ٹی ڈی وغیرہ کے پریس کانفرنسوں کا کبھی کوئی جواب یا وضاحت دینے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی لیکن اِس وقت ہم وقت کی اہم ضرورت محسوس کرتے ہوئے خود کو اپنے وطن سندھ، سندھی قوم، سندھ کی قومی تحریک اور سندھ کے تمام باشعور لوگوں اور نوجوانوں کے سامنے ایک ذمہ دار تنظیم کی حیثیت میں یہ چند باتیں رکھنا ضروری سمجھتے ہیں ۔

قمبرانی نے کہا ہے کہ رہبرِ سندھ سائیں جی ایم سید جب سندھ کی آزادی کی تحریک کے فِکری بُنیاد ڈال رہے تھے تو اُس وقت ہی سائیں جی ایم سید سندھودیش کے اُس عظیم مشن کو پایہءِ تکمیل تک پہنچانے کے لیئے جیئے سندھ محاذ اور جساف کی صورت میں ایک منظم سیاسی تنظیم کے بُنیاد بھی رکھے تھے ۔ تاکہ جیئے سندھ ہلچل اپنے مقاصد کی حاصلات کے لیئے عٙملی طور پر بھی انقلابی جدوجہد کی تمام تر تقاضات اور لوازمات کو پورا کرے اور سندھودیش کی آزادی کی جدوجہد کو کامیابی سے آگے لے چلے ۔

انھوں نے کہاہے کہ پاکستانی ریاست ایک طرف سائیں جی ایم سید کے خلاف اپنے نشر و اشاعت کے تمام تر ذرایع کو استعمال کرتے ہوئے پروپیگنڈا کے تمام حٙربے استعمال کرتی رہی، تو دوسری جانب ریاستی ایجنسیوں نے جیئے سندھ ہلچل میں اپنے ایجنٹوں اور آلہ کاروں کو داخل کرکے، انکے ذریعے بار بار تحریک کو توڑ پھوڑ اور انتشار کا شکار بناکر اُسے کمزور کرنے کی کوشش کرتی رہی ، تو تیسری جانب جیئے سندھ تحریک کے خلاف بھرپور ریاستی آپریشن کرکے جیئے سندھ کے سیکڑوں کارکنوں کو شہید کرتی رہی ، ہزاروں کو گرفتار کرکے جیلوں اور ٹارچر سیلوں میں ڈالتی رہی۔ پاکستانی ریاست جیئے سندھ ہلچل کو کُچلنے کے لیئے یہ سب کاروائیاں سائیں جی ایم سید کی زندگی میں ہی جاری رکھے ہوئی تھی ۔ لیکن سائیں جی ایم سید جیسی قدآور شخصیت اور فِکری مرکزیت کے سائے اور رہبری میں جیئے سندھ ہلچل فِکری ، سیاسی اور بڑی حد تک تنظیمی طور پر اُس محور اور مرکز کے چوگرد مضبوط اور منظم رہتی آئی۔ ایس آر اے رہنما ء نے کہاہے کہ سائیں جی ایم سید کی وفات کے بعد جیئے سندھ ہلچل کے تقریباٙٙ تمام گروپوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر (انضمام کرکے) ایک ہی بڑی قومی پارٹی “جیئے سندھ قومی محاذ (جسقم) ” بنائی ۔ جِس پارٹی نے جسقم کے بانی چیئرمیں سائیں عبدالواحد آریسر اور شہید بشیر خان قریشی کی رہنمائی میں شاندار تاریخی جدوجہد کِی۔ اور ایک ہی وقت اُس نے کالاباغ ڈئم کے خلاف جدوجہد سے لیکر سندھ کے ہر بنیادی قومی مسئلے پر سندھیوں کی ایک بڑی سیاسی ،قومی اور عوامی سطح پر مزاحمت کے بُنیاد رکھے ۔ ایک بڑی سیاسی اور عوامی سطح سے آگے بڑھ کر وہ ہلچل ایک منظم سیاسی اور مزاحمتی تنظیم میں تبدیل ہو رہی تھی اور سندھی عوام اور سماج میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہو رہی تھی تو عین اس وقت پاکستانی ریاست کی شاطر ایجنسیوں سے سندھیوں کی وہ سیاسی اور قومی مُزاحمتی طاقت برداشت نہیں ہوئی اور ایجنسیوں نے اپنے دلالوں اور ایجنٹوں کے ذریعے اس تحریک کو توڑ پھوڑ کا شکار بنانے ، گروہ بندیاں کرانے، اور پینیٹریشن کرنے کے ہر قسم کے ریاستی حربے استعمال کرکے قومی تحریک کے خلاف ریاستی آپریشن جاری رکھا ۔

انھوں نے کہاہے کہ اس ریاستی آپریشن میں جسقم کے سربراہ سندھیوں کے مقبول ترین عوامی لیڈر شہید بشیر خان قریشی کو ایک سازش کے تحت شہید کردیا گیا اور اس کے ساتھ جیئے سندھ کے دیگر سیکڑوں رہنمائوں اور کارکنوں کو شہید کیا گیا اور بہت کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں کارکنان کو بغاوت اور دہشتگردی سمیت دیگر مختلف مقدمات میں گرفتار کرکے اور جبری لاپتا کرکے جیلوں اور ٹارچر سیلوں میں ڈالا گیا ۔ اِس طرح پاکستانی ریاست، ان کی ایجنسیوں اور ان کے ایجنٹوں نے جیئے سندھ ہلچل کو ہر طرف سے سیاسی ،تنظیمی اور عوامی سطح پر مزاحمتی طاقت بننے میں رکاوٹیں ڈالیں اور راستہ روک کرتی رہیں ۔

قمبرانی نے کہاہے کہ چی گویرا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ “دُشمن تُماری تحریک اور جدوجہد پر دو مراحل پر حملہ کرتا ہے؛ ایک ، جب وہ آزادی کی تحریک ایک سٙلہ بن کر پیدا ہو رہی ہو یا اِمبریو پیرڈ میں ہو ، تو دُشمن کوشش کرتا ہے کہ اُسے اُسی ہی کّچی عمر میں کُچل دیا جائے تاکہ وہ سٙر اُٹھا نا سکے ۔ دنیا کی تحریکوں میں اِس طرح کے بہت مثال موجود ہیں ۔ دوسرا ، تب جب آپ کی تحریک اور تنظیم کو اُس وقت اندر اور باہر سے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے حملہ آور ہوتا ہے ،جب وہ تحریک تمام تر تکالیف اور تنظیمی پراسز سے گذر کر ایک منظم انقلابی تنظیم کی شکل اختیار کرنے لگتی ہے۔ اور اپنے بھرپور جوبھن میں آکر اپنے وطن اور قوم کی ایک طاقتور قوت بن کر اُبھرنا شروع کرتی ہے۔ تو اُس وقت بھی ریاستی آپریشن کے تمام ہتھکنڈے سرگرم ہوجاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کِس طرح اُس موومینٹ کو سیدھی طرح ریاستی آپریشن یا اندرونی مُہروں اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے نفسیاتی حربوں کو استعمال کرکے منتشر اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیا جائے۔

ایس آر اے رہنماء نے کہاہے کہ جیئے سندھ ہلچل اپنی آزادی کی جدوجہد کی نصف صدی (پچاس سالوں) کو پار کرکے اب اُن تمام تٙر ریاستی آپریشنوں ، رہنمائوں اور کارکنوں کی شہادتوں ، جیلوں ، جبری گمشدگیوں ، ٹارچر سیلوں اور ہر قسم کے نفسیاتی حٙربوں کے مراحل سے گذر کر پختہ ہو کر اِس میچوئر ترین مرحلے میں آ پُہنچی ہے۔ کِسی بھی قوم کی قومی آزادی کی تحریک کا ایک نِصف صدی تک لٙڑتے رہنا اور خود کو بچاتے ہوئے آگے بڑھتے رہنا اُس قومی تحریک کی ایک بڑی کامیابی ہوتا ہے۔ اب سندھ کی نصف صدی کی اُس تحریکِ آزادی کو اِس وقت کے درپیش تمام تٙر چئلینجز کو سامنے رکھ کر اٙب دوسرے فیصلہ کُن مُزاحمتی فیز ( مزاحمتی جنگ کے مرحلے) میں داخل ہونے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہاہے کہ جِس مزاحمتی فیز متعلق سائیں جی ایم سید اپنے کتاب “رٙہبر” میں سرفروشوں کے گروہ یا “سندھ لبریشن فرنٹ” (SLF) بنانے اور ” سِندھودیش کِیوں اور کِس لیئے؟ ” کتاب میں بنگال کی “مُکتی باہنی” جیسی تنظیمیں بنا کر سندھ کی آزادی کے لیئے مُسلح جدوجہد کرنے کا واضح راستہ بتایا ہے ۔ جیئے سندھ تحریک کے تمام پُرانے سینیئر ساتھی اور کارکن آج اُس بات کی ” سِینہ بٙسینہ” گواہی دیتے ہیں کہ سائیں جی ایم سید نے اپنی زندگی میں ہی اُس کے لیئے کوششیں کِی تھیں۔ ویسے تو سندھ کی مزاحمتی جدوجہد کی تاریخ بہت طویل اور صدیوں پر محیط ہے۔ شہید اول راجا داہر سے لیکر شہید دودو سومرو، شہید دولھہ دریا خان ، شہید مخدوم بلاول ، شہید شاہ عنایت، شہید جنرل ہوشو شیدی سے لیکر شہید صبغت اللہ راشدی عرف سورھیہ بادشاہ تک صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ ہماری تنظیم سندھودیش انقلابی آرمی(ایس آر اے) سندھ کی اُسی ہی صدیوں کی مزاحمتی جنگ کا تسلسل ہے ۔ سال 2010ع میں ایس آر اے چیف کمانڈر سائیں اصغر شاہ کی رہنمائی میں قومی تحریک کے سینیئر ساتھیوں کے ساتھ مِل کر ہم نے سندھ کی آزادی کی لیئے ایک منظم گوریلا تنظیم بنائی ۔ جِس تنظیم کے بُنیاد رکھنے کے وقت ہی اس کے تمام تنظیمی اداروں اور شعبوں کی تشکیل بھی دی گئی ۔ جِن تمام تنظیمی شعبوں اور اداروں نے اپنے کامیابی سے تنظیم کے تمام آپریشنل معاملات کو سنبھالا اور چلایا ۔ اور سندھ میں گوریلا جنگ کےجدید طریقوں کو متعارف کرواتے ہوئے سندھ بھر میں پاکستانی فورسز ، چائنا کے سیپیک پراجیکٹس ، پنجابی آبادکاری ، مذہبی انتہاپسندی کے مراکز ، اور پنجاب جانے والی تمام سپلائی لائینز پر زبردست اور کامیاب حملے کیئے۔

انھوں نے کہاہے کہ پاکستانی ریاست نے ایس آر اے کی اُس سات سالہ منظم گوریلا کاروائیوں کو کُچلنے کے لیئے 2017 ع سے خاص طور پر ہماری تنظیم ایس آر اے اور مجموعی طور پر پوری جیئے سندھ ہلچل خلاف تیز ترین ریاستی آپریشن شروع کر دیا ۔ 201سے شروع ہونے والے جِس ریاستی آپریشن میں سندھ کی قومی تحریک کے سیکڑوں سیاسی ، سماجی ، قومپرست کارکنان، علمی ادبی شخصیات ، قلماروں، صحافیوں ، وکیلوں اور اُستادوں کو جبری طور پر اُٹھاکر لاپتا کرنا شروع کردیا ۔ جن میں بُہت قومپرست کارکنوں کو کئی سالوں تک جبری لاپتا رکھنے کے بعد کیسز لگا کر کئی سالوں تک جیلوں میں ڈالا گیا ۔ اور ان قومپرست کارکنوں میں سے درجنوں کی تعداد میں کئی سالوں سے ابھی تک جبری لاپتا ہیں ۔ اور سندھ کے ان لاپتا کارکنان میں سے بہت کارکنوں کی مسخ شدہ نعشیں پھینکیں گئی۔

انھوں نے کہاہے کہ پاکستانی آرمی، رینجرز ،پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکار ہٙر آئے دن ہمارے قومپرست کارکنان کے گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور ہمارے کارکنان کی مائوں بہنوں بوڑھوں اور بچوں کے اوپر بندوقیں تان کر ان پر تشدد کرتے ہیں، ان کی تذلیل کرتے ہیں ، گھروں میں توڑ پھوڑ کرکے ہمارے معصوم نوجوان بچوں کو وہاں سے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ان کو جبری لاپتا کر کے اپنی فوجی چھاونیوں کے ٹارچر سیلوں میں رکھتے ہیں۔ سندھی قوم ، پاکستانی فورسز کا یہ ظلم اور بر بریت اپنی آنکھوں سے دیکھےاور خود ہی فیصلہ کرکے بتائے کہ ہمیں اُن سے کیسے مقابلہ کرنا چاہیے ؟ ہم واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے وطن کے شہیدوں کے بٙہتے ہوئے خون کا ایک قطرہ بھی رائیگان ہونے نہیں دیں گے۔ ویڈیو پیغام میں انھوں نے کہاہے کہ 2017سے لیکر آج تک جاری پاکستانی ریاست کے اس آپریشن کے دوراں پاکستانی ایجنسیوں نے کئی بار نچلی سطح پر ہماری تنظیم میں پینیٹریشن کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ پینیٹریشن کبھی پنوعاقل چھاونی تو کبھی کراچی اور حیدرآباد چھاونی سے اپنے لوگ تنظیم میں بھیج کر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن ایس آر اے کی باصلاحیت اور باخبر قیادت ان ریاستی پینیٹریشن والی حرکتوں سے فوراٙٙ خبردار ہوتی رہی ہے۔ پاکستانی ایجنسیوں کا ہماری تنظیم میں پینیٹریشن کا حربہ کامیاب نہیں ہوا تو انہوں نے اپنے ایجنٹوں کی معرفت مختلف قومپرست کارکنان کو سرینڈر کروانا شروع کردیا ۔ جِس کی شروعات پنوعاقل چھاونی کی معرفت کشمور اور گھوٹکی کے کچے کے جنگلات کے کُچھ ڈاکوئوں سُلطو شر اور دیگر کی معرفت دانش شاہ، ارسلان شاہ ، عدنان بلو ، بادشاہ بلو، ممتاز سومرو سمیت کچھ اور اپنے ہی لوگوں کو سرینڈر کرواکر پنوعاقل چھاونی میں مہمانِ خصوصی کے طور پر ٹہرایا گیا اور اُن سرینڈر شدہ لوگوں سے باہر مختلف کارکنوں کو فونیں کروائی گئی۔. جن کی کافی کال رکارڈنگز ہمیں موصول ہوتی رہی ہیں اور ہم اِن دلالوں کا پردہ فاش کرنے کے لیئے ان کو سوشل میڈیا پر مختلف اوقات میں شایع کرتے رہے ہیں ۔ سجاد شاہ جوکہ اِن سرینڈر شدہ دانش شاہ اور ارسلان شاہ کا بھائی ہے ، اُس کو بھی اِنہی سرینڈر شدہ بھائیوں نے پنوعاقل چھاونی سے بیٹھ کر کال کرکے کسی طے شدہ جگہ پر بُلوایا اور وہاں سے پاکستانی ایجنسیوں کے حوالے کروایا ۔ جوکہ اب پاکستانی ایجنسیوں کی تحویل میں ہے۔

انھوں نے کہاہے کہ دوسری جانب وہ ہی ایجنسیان اِِن بھائیوں اور دوسرے سرینڈر شدہ لوگوں کے ذریعے ہماری تنظیم اور قیادت کے خلاف جھوٹے الزامات پر مبنی پروپیگنڈا کرواتی رہتی ہیں تاکہ سندھ کے نوجوانوں کے ذہنوں کو ایس آر اے اور اس کی قیادت سے بٙدذہن کر سکیں ۔ اور بیک وقت ایجنسیوں نے اِن سرینڈر شدہ لوگوں پر مشتمل ایک “گمراہ کن گروہ” پیدا کیا ہے، جِن کو ایجنسیوں نے کام ہی یہ دیا ہے کہ وہ ساری سندھ کا دورہ کرکے ہر جگہ پر سندھ کی مزاحمتی جدوجہد ، ایس آر اے چیف کمانڈر اصغر شاہ اور دوسری ایس آر اے قیادت کے خلاف گمراہ کُن ریاستی پروپیگنڈا کرتے رہیں۔ اِنہی ریاستی دلالوں نے پاکستانی ایجنسیوں کے اشارے پر ہماری برادر بلوچ قوم اور تنظیموں کے قومی رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ، بے ایل اے سربراہ بشیر زیب بلوچ ، بے ایل اے کمانڈر اُستاد مُرید بلوچ اور دیگر رہنمائوں کی تصاویر کا بینر بنا کر کراچی میں بلوچ مسنگ پرسنز کئمپ کے سامنے اُن کے خلاف نعرہ بازی کی ۔ سندھی مسنگ پرسنز کئمپ کے سامنے انہوں نے سندھی ادیب سائیں تاج جویو، ماما قدیر بلوچ اور اسد بٹ کے تصاویر کا پینافلیکس بنا کر ان پر مشتمل کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا اور ہمارے خلاف نعریبازی کی ۔

انھوں نے کہا ہے کہ ہم سندھ کے نوجوانوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے ریاستی ایجنٹوں کی جھوٹی پروپیگنڈا اور اُن کے بچھائے ہوئے نفسیاتی جنگ کے جال میں پھنسنے سے خود کو بچائیں۔ ا نھوں نے کہاہے کہ دوسری بات شہید اللہ ڈنو راہموں کے حوالے سے یہ ہے کہ یہی ریاستی دلال سی ٹی ڈی پولیس کی مختلف کال رکارڈنگس سوشل میڈیا پر چلا کر ہماری تنظیم کے خلاف ریاستی پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ شہید اے ڈی راہموں کے معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے کسی بیمار رشتہ دار سے عیادت کرنے کے لیئے کراچی ہسپتال گئے ہوئے تھے۔ پاکستانی ایجنسیوں نے اُس کو بھی اِنہی سرینڈر شدہ لوگوں کی مدد سے سی سی ٹی وی کے ذریعے شناخت کرواکر 14 مئی 2022ع کو گرفتار کیا اور شہید اے ڈی کو گرفتار کرنے کے بعد اس کی فون سے سائیں اصغر شاہ کو کال کروائی گئی۔. جس کال کو سی ٹی ڈی والوں نے رکارڈ کرکے بعد میں شرجیل میمن کی پریس کانفرنس میں چلایا ۔ جِن سرینڈر شدہ لوگوں نے شہید اللہ ڈنو راہموں کی سی سی ٹی وی پر شناخت کرکے اس کو گرفتار اور شہید کروایا ۔ اب وہ ہی ریاستی دلال شہید اے ڈی کی کال رکارڈنگ کو لیکر ہماری تنظیم کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں ۔ شہید اللہ ڈنو راہموں اور شہید نواب راہموں سندھ وطن کے بہادر بیٹے تھے ، جنہوں نے وطن کی آزادی کی جنگ میں شہادت کا جام نوش کیا ۔ ایس آر اے شہید نیاز لاشاری ، شہید اللہ ڈنو راہموں ، شہید نواب راہموں ، شہید اللہ بخش کھوکر سمیت سندھ کے سارے شہداء کو قومی سلام پیش کرتی ہے۔

انھوں نے کہاہے کہ تنظیم کے ایک ذمہ دار کمانڈر کی حیثیت سے میں اس وڈیو پیغام میں عاقب چانڈیو کے معاملے پر بھی مختصر بات کروں گا ۔ عاقب چانڈیو کو تنظیم نے اس کی ساری فیملی سمیت کسی محفوظ مقام پر منتقل کیا تھا ۔ لیکن یہ اپنی غلطیوں ،نادانیوں ، نا سمجھی بیوقوفی اور باہر بیٹھے کچھ مشکوک لوگوں سے مسلسل روابط رکھنے کی وجہ سے مسلسل تنظیمی طریقیکار اور ڈسیپلین کو توڑتا رہا اور سمجھانے کے باوجود بھی وہ ہی غلطیاں کرتا رہا۔ یہ اپنی گمشدگی سے کچھ عرصہ قبل ایم کیو ایم لنڈن کی سابقہ رہنما اور اب پاکستانی ایجنسیوں کے لیئے کام کرنے والی عورت کہکشان حیدر سے رابطے میں رہا۔ جس عورت نے اِس کا رابطہ پاکستانی ایجنسیوں سے کروایا ۔ عاقب کے اغوا کا سِین بھی بلکل اُسی طرح ہوا ہے ،جِس طرح اس کے کچھ وقت قبل ایک بلوچ کمانڈر گلزار امام عرف شمبے کو پاکستانی ایجنسیوں نے ٹریپ کرکے گرفتار کرکے لاپتا کیا تھا ۔

انھوں نے کہاہے کہ پاکستانی ایجنسیوں نے وہ ہی طریقہِ واردات عاقب چانڈیو کو ٹریپ کرکے اغوا کرکے لے جانے میں کیا ہے۔ جس حقیقت کو اس کی ساری فیملی اور جن کی معرفت رہائش کی ہوئی تھی۔ وہ سب اچھی طرح سے واقف ہیں۔

ویڈیو میں ایس آر اے رہنما معشوق قمبرانی نے کہاہے کہ آخر میں ہم تنظیم کی طرف سے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ذوالفقار خاصخیلی نامی ایک شخص گذشتہ سال ڈیڈھ سے ہماری تنظیم ایس آر اے کا حصہ نہیں ہے ۔ ہمیں مختلف ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وہ ہماری تنظیم کا نام استعمال کرکے اپنے اصل نام والی فیس بک آئی ڈی اور دیگر فیک اکائونٹس سے ہمارے خلاف کافی غلط پوسٹیں چلا رہا ہے۔ تنظیم کا اس سے اب کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کے اندر اور سندھ کے باہر کئی مشکوک لوگ ممکنہ طور پر پاکستانی ایجنسیوں کا دیا ہوا جال بچھا کر سندھی نوجوانوں سے مخلتف آئڈیوں سے گوریلا جنگ کے لیئے رابطے کر کے پھر اُن ہی نوجوانوں کو ایجنسیوں کے ہاتھوں پکڑوا رہے ہیں۔ تمام مشکوک لوگوں کی ایسی حرکتوں کے بہت سے تفصیلات اور ثبوت ہماری تنظیم کو موصول ہوتے رہتے ہیں۔ گوریلا جنگ کے نام پر سندھی نوجوانوں کو ٹریپ کرکے پکڑوانے والے اُس نیٹ ورک پر ہم ایک اور سیشن میں تفصیلی طور پر بات کریں گے۔ تاکہ سندھی نوجوان اُن سے بچ سکیں۔

انھوں نے کہاہے کہ یہاں پر ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ سندھ کی مزاحمتی جدوجہد سے ویساہ گھاتی کرنے والوں اور نوجوانوں کو مخبری کرکے گرفتار کروانے والے ان پاکستانی ایجنسیوں کے تمام دلالوں کو قطعی معاف نہیں کیا جائے گا۔ قومی غداروں ، وطن فروشوں اور دیسی دلالوں کے لیئے دنیا کی انقلابی تنظیموں میں جو فیصلے ہوتے ہیں ، ہم بھی اُسی ہی طریقیکار پر چلتے ہوئے اُن تمام دیسی دٙلالوں سے سختی سے نپٹیں گے۔ قمبرانی نے کہاہے کہ ہم سندھ کے نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہم سندھ کی مزاحمتی جدوجہد کے ایک ادنیٰ سپاہی ہیں۔ آپ نوجوان بھی آکر ہمارے ساتھ تنظیم میں شامل ہو کر ساتھی بنیں اور تمام ریاستی حٙربوں ، سازشوں اور پروپیگنڈائوں کو ناکام بنائیں ۔ ایس آر اے قیادت پر بھروسہ کرکے وطن کی مزاحمتی جدوجہد کو مضبوط اور منظم کریں اور اِس جنگ کو آگے لیکر چلیں ۔ یہ جنگ وطن کی امانت ہے۔ وقت اور حالات کی یہی تقاضا ہے کہ سندھ کے نوجوان سندھ کی مُزاحمتی جدوجہد کی ایک نئی تاریخ رٙقم کریں