سمعیہ قلندرانی کون تھی؟
دی بلوچستان پوسٹ – رپورٹ
24 جون, 2023ء، سینیچر کے روز، بلوچستان کے شہر تربت میں ایک بڑا اور غیرمعمولی واقعہ پیش آیا، جس نے پورے خطے میں ہلچل مچا دی۔ بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ کی دوسری خاتون فدائی نے پاکستانی فوج کے ایک قافلے کو خودکش حملہ میں نشانہ بنایا۔
بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے )، بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں مصروف سب سے زیادہ متحرک مسلح تنظیم، نے فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی اور کہا کہ مجید بریگیڈ کی خاتون فدائی سمعیہ قلندرانی بلوچ نے یہ حملہ سرانجام دیا ہے۔
مجید بریگیڈ بی ایل اے کی وہ خصوصی یونٹ ہے جو ایسے فدائی حملوں کو انجام دینے میں مہارت رکھتی ہے۔
بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے یہ بھی بتایا کہ کہ حملہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام کو لے جانے والے فوجی قافلے پر کیا گیا تھا، جو تربت ہوائی اڈے سے انٹر سروسز انٹیلیجنس ہیڈکوارٹرز جارہا تھا۔
ابتدائی رپورٹوں کے مطابق، قافلے پر حملہ انتہائی شدید نویت کا تھا اور حملے کے نتبجے میں قافلے کو بھاری نقصان پہنچا۔ لیکن، پاکستانی قانون نافذ کرنے والے ادارے، بشمول پاکستانی فوج کے اہلکاروں نے علاقے کو فوری طور پر سیل کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے نقصانات اور ہلاکتوں کا شفاف اندازہ نہیں لگایا جا سکا۔
حکام کی جانب سے میڈیا کو دی گئی ابتدائی رپورٹوں کے مطابق، سینیچرکے روز دوپہر کو تربت کے چاکر اعظم چوک پر ایک خاتون نے فوجی قافلے کو ایک خودکش حملے میں نشانہ بنایا-
حکام کے مطابق پولیس کی گاڑی بھی حملے کی زد میں آئی تھی، جس کی وجہ سے ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک خاتون کانسٹیبل سمیت دو اہلکار زخمی ہوئے۔ تاہم، مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ حملے کی حقیقی تفصیلات آنا ابھی باقی ہیں۔
بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے ابتدائی رپورٹوں کی تردید کی اور کہا کہ نہ تو قریبی پولیس گاڑی اور نہ ہی اس میں سوار پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے پاکستانی فوجیوں کو پولیس گاڑی کے حملے میں ملوث ہونے کا الزام دیا۔ جو حملے کے وقت سڑک کی دوسری طرف چل رہی تھی۔
ایک دن بعد، ایک مقامی پولیس اہلکار نے بھی یہ تصدیق کی کہ حملے کے بعد فوجی اہلکاروں کی اندھا دھند فائرنگ کی وجہ سے پولیس اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے-
سمعیہ بلوچ کی زندگی کی ایک جھلک
سمعیہ قلندرانی بلوچ عرف سمّو ، 17 اگست 1997کو بلوچستان کے خضدار ضلع کے گاؤں توتک میں قلندرانی قبیلے کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئیں۔
2011ء کے فروری میں، جب توتک میں فوجی آپریشن کے دوران کئی گھرانوں کے رہائشی لاپتہ کیے گئے تھے، ان کا خاندان بھی پاکستانی ریاست کی بربریت کا نشانہ بنا۔
تاہم، توتک آپریشن کے کئی سال بعد، 18 برس کی عمر میں سمعیہ نے بلوچ لبریشن آرمی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا-
بلوچ لبریشن آرمی کے مطابق، سمیعہ کا بی ایل اے میں شمولیت کسی ایک مخصوص واقعے کی بنا پر نہیں تھا، بلکہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک شعوری اور سوچا سمجھا فیصلہ تھا، یہ فیصلہ اسکی بلوچستان کے حالات کی گہری سمجھ، قومی شعور کی پختکی اور مضبوط سوچ و فکر کا نتیجہ تھا۔
سمعیہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں، ان کا تعلق صحافت کے پیشے سے تھی، وہ پانچ سالوں تک بلوچ لبریشن آرمی کی میڈیا ونگ سے خدمات سرانجام دیتی رہی اوراس دوران بی ایل اے میڈیا ونگ کو مضبوط اور پر اثر بنانے میں اپنی مہارتوں اور ذہنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا۔
ان کی ذاتی زندگی بھی بلوچ تحریک کے ساتھ گہری طرح جڑی ہوئی تھی۔ وہ فدائی ریحان بلوچ کی منگیتر تھیں، جنہوں نے 2018 میں دالبندین کے قریب چینی انجنیروں پر فدائی حملہ کیا تھا، اور بی ایل اے کے بانی رہنما، جنرل اسلم بلوچ کی بہو تھیں۔
بی ایل اے کے ترجمان کے مطابق، سمعیہ نے 21 سال کی عمر میں مجید بریگیڈ کے لئے رضاکارانہ طور پر خدمات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس فیصلے پر قائم رہیں، اور وہ سینیچر کو کامیاب فدائی حملہ کرکے بلوچ تاریخ میں امر ہوگئیں۔
سمعیہ بلوچ کی اس اقدام نے انہیں بلوچ مزاحمت کی ایک عظیم و ناقابل فراموش کردار بنا دیا ہے، جو بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں ایک نمایاں مقام کا حامل ہے۔
بلوچستان کی مسلح مزاحمت میں خواتین کا بدلتا کردار
بلوچستان کی مسلح مزاحمت کی تاریخ میں ایک منفرد تبدیلی رونما ہو رہی ہے، ایک وقت تھا جب خواتین قومی تحریک میں صرف حمایتی کردار ادا کرتی تھیں، لیکن اب خواتین مردوں کے روایتی کرداروں میں قدم رکھ رہی ہیں۔ سمعیہ بلوچ کی جانب سے کی جانے والی فدائی حملہ، بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کا ایک اہم مرحلہ ہے، جو نہ صرف تنازعہ کی شدت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ مسلح مزاحمت میں خواتین کے بڑھتے کردار کو بھی عیاں کرتا ہے۔
گزشتہ برس اپریل میں بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کی پہلی خاتون فدائی، شاری بلوچ، نے کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں پر ایک خودکش حملہ کیا تھا۔ اس وقت، زیادہ تر لوگ شاری کے اس عمل کو بلوچ تحریک آزادی میں ایک بار رونما ہونے والا واقعہ سمجھتے تھے۔ لیکن، سمعیہ بلوچ کے حالیہ حملے نے ثابت کردیا ہے کہ یہ فرضیہ غلط تھا۔
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے حالیہ بیان میں تصدیق کی ہے کہ اب متعدد خواتین مجید بریگیڈ کا حصہ ہیں، جو خودکش حملوں کے لئے تیار ہیں۔
“قابض پاکستان اور اسکا ہمنوا چین، بلوچستان کی آزادی کو تسلیم کرکے فاالفور بلوچستان سے نکل جائیں، ورنہ بی ایل اے کی شدید حملوں کیلئے تیار رہیں۔”
گزشتہ روز، بلوچ لبریشن آرمی نے اپنی میڈیا چینل پر ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں مجید بریگیڈ کی کئی خاتون اراکین بریگیڈ کی یونیفارم اور خودکش ویسٹ پہنے ہوئے نظر آئے۔
اس ویڈیو میں، سمعیہ نے اردو زبان میں اپنا آخری پیغام دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ باوجود امیر زمین کے مالک ہونے کے، بلوچ لوگوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا ہے اور ان کے نوجوان اپنی زندگی ریاستی عقوبت خانوں میں گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کا عمل صرف ایسی قربانیوں کی ابتداء ہے اور انہیں یقین ہے کہ وہ صحیح راہ پر ہیں، اور انہوں نے بلوچ قوم سے جدوجہد میں شریک ہونے کی درخواست کی-
روایتی طور پر، بلوچستان کی آزادی کی تحریک میں خواتین کا کردار حمایتی یا علامتی ہوتا رہا ہے، جبکہ فعال جنگی کردار بہت حد تک ممنوع سمجھا جاتا رھا ہے۔ تاہم، سمعیہ اور شاری بلوچ کے حملوں نے ان قواعد کو توڑا دیا ہے، اور یہ بتایا ہے کہ خواتین صرف اس جدوجہد کا حصہ نہیں بلکہ مسلح مزاحمت میں مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔
عوامی رد عمل
سمعیہ بلوچ کے حملے کے بعد، سوشل میڈیا پر عوامی ردعمل کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلوچ عوام نے ان کی شہادت کو نہایت مثبت اور حوصلہ افزا انداز میں لیا ہے۔ یہ ردعمل خصوصاً ٹویٹر پر نمایاں ہوا، جہاں ہیش ٹیگ #SumaiyaTheLegend کچھ گھنٹوں میں ٹوپ ٹرینڈز میں شامل ہوگیا۔ یہ ہیش ٹیگ بلوچستان کی آزادی کی تحریک کے کارکنوں اور حمایتیوں کی جانب سے شروع کیا گیا، جنہوں نے اس کا استعمال کرتے ہوئے سمعیہ بلوچ کو جراج تحسین پیش کیا۔
زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ہیش ٹیگ صرف مسلح تحریک کے حمایتیوں تک ہی محدود نہیں رہا، بلکہ اس نے مختلف نظریاتی گروہوں کے افراد کو بھی متاثر کیا۔ صارفین نے سمعیہ بلوچ کی بہادری اور قربانی کو سراہا۔
” بلوچ خواتین فرنٹ لائن پر “
بلوچستان میں جاری تنازعے کی سرگرم میدان میں، خواتین کا ظہور مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ اس تبدیلی کی جلک شاری بلوچ اور سمعیہ بلوچ کے بہادرانہ حملوں میں نظر آتی ہے۔ان کی شرکت نے مقامی روایات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اس جدوجہد میں جنسی کرداروں کے نئے تشخص کا دروازہ کھول دیا ہے۔
یہ تبدیلی بلوچستان کے آزادی کی جدوجہد کی مستقبل کی راہ کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ خواتین کی مسلح تحریک میں شرکت، جدوجہد کو نئی جان اور توانائی دے سکتی ہے۔ لیکن دوسری جانب، یہ موجودہ سیاسی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بھی بنا سکتی ہے۔
تربت کے واقعے نے بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ میں نیا باب کا آغاز کیا ہے۔ اس واقعے کے طویل مدتی اثرات ابھی تک پوری طرح سے واضح نہیں ہو سکے۔
لیکن ایک حقیقت نمایاں طور پر واضح ہے: بلوچ خواتین کی مسلح جدوجہد میں فعال شمولیت کا دور اس خطے میں یقیناً شروع ہو چکا ہے۔ سمعیہ بلوچ کی فدائی حملے کے ذریعے جو اس قسم کے دوسرے حملے کی حیثیت رکھتا ہے، بلوچ خواتین کا فرنٹ لائن پر شرکت کو اب مزید one-off incident کہہ کر نظرانداز یا خارج کرنا ممکن نہیں ہے۔