ذاکر مجید: شعور کا قیدی – ٹی بی پی اداریہ

218

ذاکر مجید: شعور کا قیدی

ٹی بی پی اداریہ

پاکستان کے ریاستی اداروں نے مبینہ طور پر بلوچستان میں ہزاروں سیاسی کارکنان جبری گمشدہ کردیئے ہیں، جن میں کئی دو دہائیوں سے جبری گمشدہ ہیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے وائس چیرمین زاکر مجید طلباء سیاست سے وابستہ تھے، انہیں دو ہزار چھ کو پولیس نے سیاسی سرگرمیوں کے پاداش میں گرفتار کیا اور کئی مہینے خضدار جیل میں رہے۔ ذاکر مجید کو آٹھ جون دو ہزار نو کو مستونگ پڑنگ آباد سے جبری گمشدہ کیا گیا۔ زاکر مجید کے سیاسی ساتھی زاہد بلوچ کو بھی جبری گمشدہ کیا گیا اور اُن کے دوست شفیع بلوچ، کمبر چاکر اور سنگت ثناہ جبری گمشدگی کے بعد قتل کردیئے گئے۔

“ذاکر، جسے میں نے جنم دیا، وہ پلا بڑھا اور اپنی قوم کے غصب شدہ حقوق کا شعور اپنے جیسے طالب علموں میں پھیلاتا رہا، اسے پاکستان کے خفیہ اداروں نے جبری گمشدہ کیا اور ہم سے تاوان بھی طلب نہیں کیا۔ زندہ ضمیر انسانیت اور آپکا شعور آپکو مجبور کرے گا کہ آپ میری دھیمی آواز کا ساتھ دیں تاکہ آپکا لہجہ شناخت ہوکر انسانی ضمیر کو موت کے آغوش سے بچا لائیں۔” زاکر مجید کی والدہ کے یہ الفاظ اُن بلوچ ماؤں کی ترجمانی کرتی ہیں، جو دو دہائی سے اپنے بچوں کی باحفاظت بازیابی کی جدوجہد کررہے ہیں۔

ذاکر مجید کی بازیابی کے لئے اُن کے خاندان اور سیاسی اداروں نے منظم سیاسی مہم چلائی، ذاکر مجید کی بہن فرزانہ مجید، ماما قدیر کے ساتھ بلوچستان میں جبری گمشدہ سیاسی کارکنان کے بازیابی کے لئے کوئٹہ – کراچی اور کراچی – اسلام آباد لانگ مارچ کا حصہ تھے۔ زاکر مجید کی بہن فرزانہ اُن کی بازیابی کے لئے پانچ سال تک پریس کلبوں اور احتجاجوں کی قیادت کرتی رہی، اور زاکر مجید کی والدہ چودہ سالوں سے کوئٹہ ، کراچی اور اسلام آباد میں احتجاج کرچکی ہیں لیکن چودہ سال بعد بھی وہ بازیاب نہ ہوسکے۔

بلوچستان میں بلوچ انسرجنسی کی شدت کے ساتھ ہی بلوچ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی میں اضافہ ہوا ہے اور بلوچ آزادی کے جدوجہد سے وابستہ اداروں کے رہنماؤں ؤ کارکنان کو جبری گمشدہ بنایا گیا۔ بلوچستان میں دو دہائی کے بعد بھی جبری گمشدگی کا تسلسل جاری اور پاکستان کے ریاستی ادارے سمجھتے ہیں کہ بلوچ سیاسی کارکنان کے جبری گمشدگی سے بلوچ قومی تحریک کو کاونٹر کرسکتے ہیں جو اُن کی بلوچ قومی جدوجہد کے تاریخ سے ناآشنائی ہی سمجھی جاسکتی ہے۔

بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد دو دہائی سے جاری ہے اور وقت کے ساتھ انسرجنسی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان سیاسی کارکنان کے جبری گمشدگیوں سے قومی تحریک کو ختم نہیں کرسکتا ہے۔

پاکستان بلوچ قومی مسئلے کو حل کرنے کے لئے جبری گمشدہ افراد کو بازیاب کرکے بلوچ قومی تحریک سے وابستہ اداروں سے بامقصد بات چیت کا آغاز کرے تو تب ہی اس مسئلے کا پر امن حل نکل سکتا ہے۔