جبری گمشدگیاں، عید کے روز کوئٹہ و گوادر میں مظاہرے

250

ہر سال کے طرح اس سال بھی بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین عید کے روز اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے مختلف شہروں میں سراپا احتجاج رہیں۔

اس سال بھی عید الضحیٰ کے روز وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام لاپتہ افراد کی بازیابی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ میں ریلی نکالی گئی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا گیا جبکہ گوادر میں حق دو تحریک و لواحقین کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے احتجاجی ریلی منعقد کی گئی۔

احتجاجوں میں لاپتہ افراد کے اہلخانہ سمیت سیاسی پارٹیوں، طلباء تنظیموں کے ارکان اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی، احتجاج میں شریک مظاہرین نے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصاویر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لاپتہ افراد کی بازیابی، بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی روک تھام، جعلی مقابلوں کے خلاف نعرے درج تھیں۔

کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج میں شریک مظاہرین سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، لاپتہ افراد کے اہلخانہ، سیاسی پارٹیوں اور طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں نے خطاب کیا۔

احتجاجی مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا لاپتہ افراد کے اہلخانہ اپنے لاپتہ پیاروں کی طویل جبری گمشدگی کی وجہ سے شدید ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہیں، دیگر لوگ اپنے خاندانوں کے ساتھ عید کی خوشیاں منا رہے ہیں اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ عید کے بابرکت دن کے موقع پر کوئٹہ سمیت ملک کے دیگر شہروں میں احتجاج کرکے کررہے ہیں۔

٘مظاہرے سے خطاب میں بلوچ پیپلز گانگریس کے صدر ڈاکٹر حکیم بلوچ کا کہنا تھا پچھلے پچھتر سالوں سے بلوچ جو اپنی آزادی اور حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے وہ جنگ اب اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے ریاست نے ہمیشہ بلوچوں کے ساتھ دھوکا کیا آغا عبدلکریم خان کو بلاء کر ساتھیوں سمیت قید بند میں رکھا جو بھی برسرے اقتدار آیا بلوچوں سے دغا کی تاہم بلوچ آج بھی اپنی مزاحمتی تحرک جاری رکھے ہوئیں اور منزل مقصود تک اپنے مقصد سے جڑے رہینگے۔

احتجاج میں شریک لاپتہ بلوچ طلباء رہنماء ذاکر مجید کی والدہ کا کہنا تھا گذشتہ چودہ سالوں سے بیٹے کے انتظار میں غموں کا گھر بناکر بیٹھی ہوں آج جس طرح یہ ریاست ہم ماؤں کے بچوں کو لاپتہ کرکے ہم پر ظلم ڈھا رہی ہے ایک دن جب ریاست اس ظلم کا سامنا کریگا تو اسے اندازہ ہوگا۔

کوئٹہ سے جبری لاپتہ ظہور احمد اور سجاد علی کی ہمشیرہ سعیدہ بلوچ نے کہا عید کو بچیاں چوڑیاں خریدتی ہے خوشیاں مناتی ہے لیکن سمی اور سائرہ بینر بنا کر اپنے پیاروں کے لئے سڑکوں پر عید مناتے ہیں تم پوچھتے ہو کہ شاری اور سمعیہ کون تھی تو وہ ہم جیسی بہنیں تھی جنھیں ریاست نے اس قدر مجبور کیا وہ اپنی جان دینے سے بھی پیچھے نہیں ہٹے۔

احتجاجی ریلی سے گفتگو میں لاپتہ جہانزیب بلوچ کی والدہ کا کہنا تھا کہ گذشتہ آٹھ سالوں سے بیٹے کی بازیابی کی فریاد لیکر عدالتوں، کمیشن اور ہر جگہ جاچکی ہوں البتہ کوئی ہمیں سننے والا نہیں، بلوچ کے لئے اس ملک میں کوئی نہیں سوائے ان لاپتہ خاندانوں کے جو اپنا غم لئے کراچی کوئٹہ میں سڑکوں پر ہیں۔

لاپتہ راشد لانگو کی ہمشیرہ نے کہا اگر آج تصویروں کا سہارہ نہیں ہوتا تو ہم اتنے سالوں سے ہم بہنیں اپنے پیاروں کے چہرے بھول گئے ہوتے۔

بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح عید کے پہلے روز جبری لاپتہ افراد کے لواحقین نے ‘حق دو تحریک’ کے ہمراہ گوادر میں احتجاجی ریلی نکالی اور مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے ان کے لواحقین کو اذیت سے نجات دلانے کا مطالبہ کیا۔

گوادر احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا اگر جبری لاپتہ افراد اس ریاست کے مجرم ہیں تو انہیں قانونی طریقے سے پولیس کے ذریعے گرفتار کیا جائے اس طرح چوروں کی طرح لوگوں کو اٹھانے کی اجازت کسی قانون میں نہیں ہے-

انہوں نے کہا کہ ہم ترقی کے خلاف نہیں ہیں لیکن جو سی پیک ہمارے بچوں کے لاشوں پر بنایا جارہا ہے ہمیں قبول نہیں –

گوادر مظاہرے کے موقع پر فورسز کے ہاتھوں لاپتہ عظیم دوست بلوچ، بولان کریم، نسیم بلوچ اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت مختلف سیاسی پارٹیوں کے مقامی رہنماؤں کے علاوہ خواتین و بچوں کی بڑی تعداد شریک ہوئے-