تصویر کہانی
تحریر: برزکوہی
جاپانیوں کی فدائی بریگیڈ “کامی کازیوں“ کا فلسفہ پٹرول کے آخری قطرے اور آخری گولی تک۔ ہیروشیما سے جہاز اڑاتے ہوئے، جب پٹرول اور گولی ختم ہوتے، تو پھر اپنا جہاز دشمن پر گرا دیتے تھے۔
جب یہ فدائی اپنے استھان ابد پر روانہ ہوتے، تو ان کے خاندان، دوست و احباب انہیں جمیل و بلند انداز میں سلام پیش کرکے رخصت کرتے، پھر وہ واپس نہیں آتے تھے۔ اسی لیئے انکا نام “الیہاتی جھونکا” پڑا تھا۔
یدھمان تاباں دروشم وافر سوچ اور مزاح سنگت، طوق غلامی سے طوق فلسفہ آخری گولی تک کا پائیندہ سفر، نجات و آزادی، بولانی عقیق درخشاں باب، ابتداء عشق اختتام نہیں ہوتا کیونکہ وہ صرف ایک باغی نہیں، وہ محض سانس کی ڈوری نہیں، وہ فلسفہ ہے، نظریہ ہے، وہ خود بولان ہے اور بولان ایک روایت، غائت درجہ، مکون، جوہر، وجدان اور تسلسل ہے، نہ ختم ہونے والا فکری و ایثاری قلزم ہے۔
زندگی برائے زندگی، عام و سادہ اور معمولی روایت و فلسفہ ہے، اپنی موت کا خود انتخاب و تعین کرکے زندگی حاصل کرنا اور تا ابد جینا یہ وہ فلسفہ ہے، یہ جہاں سے شروع ہوتا، وہاں سے ختم مقال تک، اپنی سادہ ترین سطوحات تک بھی یہ فکر عمومی کے سوچوں کے حد آخر سے باہر ، عمومیت کے ید طولیٰ کے بستار سے پَرے، حیران کن اور حیرت انگیزہے۔
بہادروں و سورماوں کی قبیل و کارواں سے تاگا و قرابت، دنیا میں سب سے مقدس و پاک اور عظیم شرف ہے۔ تب تو جاننا ہوگا، پرکھنا ہوگا اور سمجھنا ہوگا، خود بہادر بن کر بہادری سے جینا بہادری سے لڑنا اور بہادری سے امر ہونا کس قدر عظیم و پرسکون اور رشک ماہ ہوتا ہے۔
جینے کے لیے بیم، ہول، خوف و بزدلی کا سہارا، فن زندگی نہیں بلکہ جینے کی استحصال و یرغمال کی بندوبست ہے۔
گردن میں لٹکی ہوئی فخر سے گولی کی ہار پہننے والے
یہ عشاق وطن، فلسفی، قلم کی سیاہی سے نہیں کاغذ کے ٹکڑے پر نہیں بلکہ اپنے خون کی سیاہی سے سرزمین کے صفحات پر
وہ تمام سوالات کا جواب دے رہے ہیں
جن کے تلاش ابد سے ازل تک رہی
زندگی کیا ہے؟
زندگی کا کیا مقصد ہے؟
وجود کیا ہے؟
حقیقت وجود کیا ہے؟
علم کیا ہے، علم کی حقیقت کیا ہے؟
موت کیا ہے؟
روح کیا ہے؟
آزادی کیا ہے؟
سب کے جواب گردن میں طوق سے حائل، لٹکتی آخری گولی میں ہے۔
میرے خاک کے زرے زرے پر آج پڑے ہوئے خون میں یہ فلسفیانہ سوالات کے جوابات فلسفانہ اندازہ میں موجود ہیں۔ بس جاننے و سمجھنے کے لیے فلسفیانہ سوچ فلسفیانہ شعور درکار ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں