تربت سمو کے بعد
تحریر: جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بی ایل اے کی فدائی سمعیہ قلندرانی عرف سمو بلوچ منگل کی شام تربت میں دشتی بازار کے مقامی قبرستان میں گلزمین کے سپرد کردیئے گئے، بی ایل اے کی مجید بریگیڈ کے فدائی سمعیہ قلندرانی عرف سمو بلوچ نے روان ہفتے سنیچر کی شام چار بجے چاکر اعظم چوک تربت میں قابض غیر ملکی فوج کے ایک اہم قافلے کو نشانہ بناکر سرزمین پر اپنی جان نچھاور کردی تھی۔
تُربَت سے پولیس کے سنیئر حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بی ایل اے کی فدائی کا نشانہ ملٹری انٹیلی جنس کا ایک انتہائی اہم آفیسر تھا جسے ممکنہ طور پر بلوچستان کا سیکٹر کمانڈر بھی خیال کیا جارہا ہے تاہم پولیس حکام کے مطابق وہ اس ہائی پروفائل ٹارگٹ کے عہدے سے لاعلم ہیں۔ پولیس کے ایک اعلی آفیسر کے مطابق فدائی سمو نے ٹارگٹ کو درست نشانہ بنایا مگر عین اسی وقت جب دو پرائیوٹ اور چھ سیکیورٹی گاڑیوں کا قافلہ ٹارگٹ کے قریب گزرا دوسری جانب پبلک لائبریری سے لڑکیوں کو لے جانے والی ایک سوزوکی گاڑی گزری جس کے سبب فدائی سمو پہلی صف کے گاڑی کو ٹارگٹ بناتے بناتے پبلک گاڑی بچانے کی کوشش میں رک گئی تاہم دوسری گاڑی کے قریب آتے ہی اسے نشانہ بنایا جس میں ہائی لیول ٹارگٹ سوار تھا جبکہ پہلی صف میں اس کے بیوی اور بچے سوار تھے۔
پولیس اندازہ لگارہی ہے کہ دہماکے میں انتہائی اہم نوعیت کا نقصان ہوا ہے کیوں کہ ایف سی اور خفیہ اداروں نے دہماکہ کے فورا بعد پورے ایریا کا گھیراؤ کیا اور چند منٹوں کے اندر اندر اس ایریا کو مکمل دھوکر صاف کیا گیا۔ گمان یہ ہے کہ دہماکہ میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ریکارڈ ہوئی ہیں جنہیں چھپانے کی کوشش میں غلطی سے آشکار کردیا گیا۔
چاکر اعظم چوک کے جس مقام پر فدائی سمو نے ٹہر کر ٹارگٹ کا انتظار کیا وہاں عام لوگوں کی دلچسپی اور لگاؤ عجیب منظر بْیان کررہی ہے، تُربَت سے ایک عام شھری کے مطابق چار دن بعد بھی نوجْوان اور خواتین چاکر اعظم چوک پر آکر یا وہاں سے گزّرتے ہوئے اس بنچ کو سلوٹ مارتے ہیں جہاں فدائی سمو ٹارگٹ کے انتظار میں بیٹھی تھی جبکہ ایک گھریلو خاتون کے مطابق عورتوں کی بڑی تعداد یہاں آکر پھول نچھاور کرنا چاہتی ہے مگر ایک خوف اور ڈر کی فضا میں ایسا کیا جانا مشکل ہے حالانکہ موٹرسائیکل اور گاڑی سوار افراد خصوصا کئی لا تعداد نوجون ایسے دیکھے گئے جنہوں نے یہاں گزرتے ہوئے ہاتھ ماتھے پر رکھ کر سلوٹ کیا۔
دوسری طرف فدائی سمو کی شھادت پر بلوچ تحریک کے ہمدرد حلقوں میں ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے، کچھ حلقوں کا یہ خیال ہے کہ فدائی خواتین کی ضرورت انتہائی حساس نوعیت کے مقامات یا خصوصا فورسز کے اجلاس وغیرہ میں کیا جانا ضروری ہے بعض حلقے گمان کرتے ہیں کہ مجید بریگیڈ کے پاس شاید تربیت یافتہ خواتین کی تعداد زیادہ ہے یا جنگی حکمت عملی اور مقامات سے واقفیت کی کمی جب عام حالت میں انتہائی اہم نوعیت کے حملے کیئے جاتے ہیں۔
ایک سنیئر سْیاسی رہنما سے جب پوچھا گیا کہ سمو کی فدائی کاروائی کو کس تناظر میں دیکھا جائے تو ان کا خیال بھی خودکش حملوں کے لیے زیادہ سے زیادہ حکمت عملی اپنانے کا تھا تاہم جب انہیں پولیس کے حوالے سے یہ بتایا گیا کہ فدائی سمو کا ٹارگٹ ایف سی کا ایک عام قافلہ نہیں بلکہ ایک ہائی ویلیو انٹیلی جنس آفیسر تھا تب وہ اس پر قائل ہوا کہ ان جیسے حالات میں فدائی حملوں کی گنجائش رکھی جاسکتی ہے،ایک سْیاسی مبصر کے مطابق جو لوگ اس فدائی حملہ پر اختلافی نقطہ نگاہ رکھ رہے ہیں دراصل انہیں اصل ٹارگٹ کے متعلق معلوم نہیں ہے۔ جن لوگوں کو معلوم ہے کہ فدائی مشن کا اصل ٹارگٹ کیا تھا وہ اس پہ قائل ہیں۔
تاہم جب منگل کی شام فدائی سمو کے جنازہ کی ادائیگی کا اعلان کیا گیا عام نوجْوان طبقہ کے علاوہ تُربَت میں موجود برائے نام قوم پرست جماعتوں کی ضلی قیادت سے لیکر عام کارکنان تک نظر نہیں آئے جماعت اسلامی اور جے یو آئی جیسی کٹر مذہبی جماعتوں کے کارکنان جنازہ میں دیکھے گئے لیکن پارلیمنٹ پرست برائے نام قوم دوست نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل یا بی این پی عوامی کے کارکنان کمپنی کی ناراضگی کے خوف سے جنازہ میں نہیں آئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں