بلوچ گوریلا جنگ دنیا کی مہذب ترین جنگ ہے ۔ زویا بلوچ

800

بلوچ گوریلا جنگ دنیا کی مہذب ترین جنگ ہے

تحریر : زویا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب بھی کوئی کمزور طاقتور کے منہ پر تھوکتا ہے تو طاقتور اسکو دہشت گرد قرار دیتا ہے( نواب خیر بخش مری)

گزشتہ دنوں توتک قلندرانی قبیلے سے تعلق رکھنے والی سمعیہ بلوچ نے تربت میں پاکستانی ایجنسی کے ایک ہائی ویلیو کانوائے پر فدائی حملہ کرکے بلوچ تاریخ میں دوسری خاتون فدائی کے نام سے امر ہوگئیں۔

اس واقعہ کو لیکر پاکستانی پالتو میڈیا ٹرولز سمیت کئی بلوچ شخصیات بھی پراپیگنڈہ کا دانستہ یا نادانستہ حصہ بن گئے ہیں کہ جنگ میں خواتین کی شرکت قابل قبول نہیں اس سے لاپتہ افراد کے لیے قائم کیمپ سمیت بلوچ خواتین پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔

اور کئی لوگ اس حملے کو ناکام کہہ کر اپنی انا کی تسکین کر رہے ہیں، واضح رہے کہ قومی جنگ میں کامیابی یا ناکامی کا پیمانہ ایک عام فرد کے پیمانے سے یکسر مختلف ہوتا ہے کسی بھی ہائی ویلیو ٹارگٹ کے دو مقاصد ہوتے ہیں ایک عسکری دوسرا سیاسی جس میں اول الذکر سے زیادہ موخر الذکر اہمیت کا حامل ہے، تحریکی تناظر میں ہر جہد کار فدائی ہے فرق یہ ہے کہ مجید برگیڈ کے فدائین وقت شہادت خود منتخب کرتے ہیں اور فدائی تمام مراحل طے کرکے منتخب وقت پر منتخب مقام پر پہنچ کر اپنا کام باریک بینی سے سرانجام دیتا ہے تو ادارجاتی طریقہ کار کی رو سے یہ عمل کامیاب قرار پاکر اپنی سیاسی افادیت حاصل کر لیتا ہے عسکری افادیت پرائمری نہیں سیکنڈری اپروچ ہے جس کو سمجھنا لازمی ہے۔

سوال یہ نہیں ہے کہ فدائی حملہ میں کتنے افراد مر گئے اور کتنے بچ گئے بلکہ سوال یہ کہ اس عمل سے تحریک اور بلوچ قوم کو کتنا فائدہ حاصل ہوا؟ عالمی سطح پر اس عمل سے بلوچ مسئلہ کتنا واضح ہوا؟ پاکستان کو کتنی رسوائی ہوئی؟ بلوچ قوم کی نفسیات سمیت دشمن کی فوج و عوام پر اس عمل سے کیا نفسیاتی بدلاو آئے یا آئینگے ؟

تحریکی تناظر میں یہ عمل ایک کامیاب ترین عمل تھا جس نے مکمل سیاسی اہداف حاصل کرنے سمیت دشمن کو نفسیاتی طور گزند پہنچائی ہے۔

جو لوگ خواتین کی جنگ سے انکاری ہیں اور مختلف دلائل دیکر اپنا خوف چھپانا چاہتے ہیں ان سے سوال ہے کہ کیا جنگ میں کودنے سے پہلے خواتین محفوظ تھیں؟

کیا تہزیب اور جنگی قوانین سے نابلد دشمن مرد و عورت میں فرق کرتا ہے؟ شاری و سمعیہ بلوچ سے سالوں پہلے سے دشمن خواتین کو لاپتہ کر رہا ہے، جنسی و جسمانی تشدد کا شکار بنا رہا ہے، تارگٹ کلنگ کا شکار کر رہا ہے حتیٰ کہ بچے بھی اس کی بربریت سے ماورا نہیں ہیں پھر اس سب کا زمہ دار کون ہے؟

سب سے اہم بات یہ ہے کہ آیا یہ جنگ بلوچ نے چھیڑی ہے یا پاکستان نے، بلوچ قومی بقا اور تشخص کی جنگ لڑ رہا ہے، بلوچ پر یہ جنگ مسلط کی گئی اور جنگ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، بلوچ نے اسمبلیوں کو آزمایا، پر امن احتجاج کو بھی، قرآن کے نام پر پھانسیاں بھی چڑھیں اگر اب بھی کوئی بلوچ کو ہی ہتھیار پھینکنے کے لئے کہے تو اس سے بڑا منافق کوئی نہیں ہوگا۔

بلوچ اپنی ہی سرزمین پر جنگ لڑ رہا ہے، جنگی تہزیب کا یہ عالم ہے کہ شاری بلوچ فدا ہوتے وقت بھی دشمن کے علاوہ عام انسانی جانوں کے ضیاع کا خیال رکھتی ہیں، سمعیہ بلوچ کو ٹرولز گروپ کی مدد سے کمسن اور بچی کہلوانے والوں کو کیا پتہ کہ وہی سمعیہ اپنی جان قربان کرتے ہوئے بھی عوام حتیٰ کہ پولیس کی جانوں کا خیال کرکے دشمن پر واضح کر گئیں کہ جس کو تم بچی، نا سمجھ، کمسن کہہ رہے ہو وہ تم سے کہیں زیادہ جنگی قوانین کا ادراک بھی کرتے ہیں اور تہزیب یافتہ ہیں۔

بلوچ کی جنگ اس وقت شدت میں داخل ہوچکی ہے جہاں بندوق نظریہ کے تابع ہے دشمن اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لاکر بھی قدم قدم پہ منہ کی کھا رہا ہے، جتنی تکلیف قابض کو مسلح جدوجہد سے ہوتی ہے اتنی کسی بھی چیز سے نہیں ہوتی اور دشمن بالخصوص بلوچ کا دشمن اتنا گرا ہوا، نیچ اور تہذیب سے عاری ہے کہ اسے بندوق کے علاوہ کوئی زبان سمجھ نہیں آتی۔

جنگی میدان میں شکست دیکھ کر دشمن سوشل میڈیا پر تنخواہ دار ٹرولز کی توسط سے پراپیگنڈہ کرکے رائے عامہ کو بدلنے میں مصروف عمل ہے، بلوچ کو میدان جنگ کے ساتھ سوشل میڈیا کی جنگ بھی جیتنی ہوگی، پراپیگنڈہ ٹولز کو ناکام بنانا ہوگا، مس انفارمیشن کو کاونٹر کرنے سمیت صحیح و غلط انفارمیشن کا ادراک کرنا ہوگا، اپنوں کے بھیس میں چھپے کالی بھیڑوں کو پہچان کر دشمن کی ہر حربے کو ناکام کرنا ہوگا۔

آخر میں یہی کہنا چاہونگی کہ مسلط کردہ جنگ میں جب بقا و شناخت کی بات آتی ہے تو پھر جنگی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے دشمن کے خلاف ہر عمل جائز ہے، ادارجاتی نظام کے تابع تحریکیں جنس، زبان، علاقہ ، قبیلہ سے ماورا عمل مسلسل کا پیکر ہوتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں