بلوچستان میں ماروائے عدالت جبری گمشدگیاں بلوچوں کے مسئلے کو طاقت سے دبانے کی کوشش ہے۔بی ایس او

93

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے بلوچ شاعر سخی ساوڑ کی جبری گمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں نوجوانوں کی ماورائے آئین گمشدگیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ پالیسی ساز ادارے طاقت سے بلوچ مسئلے کو دبانے کی کوشش کررہے ہیں جسکی پاداش میں ملکی آئین اور جمہوری اصولوں کو روندھا جارہا ہے۔ بی ایس او سمیت بلوچ قوم پرست قیادت کا واضح موقف ہے کہ طاقت کی استعمال سے مزید نفرتیں پیدا ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی ہزاروں کی تعداد میں بلوچ سیاسی کارکنان اور نوجوان برسوں سے لاپتہ ہیں جنکے اہلخانہ نے تمام آئینی اداروں کے دروازے کھٹکٹائے ہیں لیکن اسکے برعکس اس غیر آئینی عمل میں بتدریج تیزی لائی جارہی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ بلوچستان میں جب بھی جمہوری جدوجہد کے ذریعے قومی حقوق کی بات کی جاتی ہے تو دوسری طرف یا تو اسے طاقت سے کچلنے کا منصوبہ بنایا جاتا ہے یا پیرا شوٹرز کو گراﺅنڈ میں اتار کر پرامن جدوجہد کے راستے میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے۔ اب بھی تعلیمی اداروں میں جعلی تنظیموں کی صورت میں مختلف گروپس کو متحرک کردیا گیا ہے، جنہیں انتظامیہ کی جانب سے مکمل مراعات دی جارہی ہیں تاکہ حقیقی سیاسی تنظیموں کو کاﺅنٹر کیا جاسکے۔

ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کیلئے پالیسیوں میں واضح تفریق ہے۔ ریاستی پالیسیوں میں تفریق نہ صرف انتہائی خطرناک ہے بلکہ اس سے مسائل مزید گمبھیر صورتحال اختیار کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ بی ایس او کو بلوچ نوجوانوں، یہاں کی سیاسی پارٹیوں اور طلباءکا مکمل مینڈیٹ حاصل ہے، پانچ دہائیوں کی پرامن جمہوری جدوجہد کی تاریخ رکھتے ہیں۔ ہمارا موقف بلوچستان کی سیاسی و معاشی پالیسی، وسائل پر مکمل اختیار ہے جسکے لیے بلوچ سیاسی اکابرین نے بھی تاریخی جدوجہد کی ہے۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا ہے کہ بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی کے پالیسیوں کو ترک کرکے حقیقی سیاسی قوتوں کو تسلیم کیا جائے جبکہ بلوچستان میں آئے روز ماورائے آئین اقدامات کو بند کیا جائے۔