افسانہ – غلام | منیر بلوچ

240

افسانہ – غلام

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ماں صبح کا ناشتہ تیار کررہی تھی جبکہ اسکی بیٹی بانڑی چائے بنارہی تھی۔والد نہارہےتھے۔ بانڑی کے والد کسی سرکاری اسپتال میں چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر تھے جبکہ والدہ گھریلو خاتون تھی۔ساتویں جماعت کا طالب علم چراغ جو بانڑی کا چھوٹا بھائی تھا ناشتے کے لئے انتظار کررہا تھا تاکہ جلد سے جلد اسکول پہنچے کیونکہ وہ روزانہ اسکول وقت سے پہلے پہنچ جاتا تھا۔اسی اثنا دروازے کی گھنٹی بجی تو بانڑی نے چراغ کو آواز دیکر کہا جاو دیکھو گیٹ پر نازیہ آئی ہوئی ہے گیٹ کھول دو لیکن چراغ نے جھٹ سے جواب دیا کہ جاکر خود دیکھو میں نہیں جاؤنگا تم خود جاو, تم خود بس حکم دیتی ہو کوئی کام نہیں کرتی۔ بانڑی غصے سے اسکی طرف بڑھی تو وہ بھاگ کر باتھ روم کے اندر چلا گیا اور بانڑی گیٹ کھولنے چلی گئی۔باہر نازیہ کھڑی تھی,نازیہ اور بانڑی نے انٹر کرنے کے بعد جامعہ میں داخلہ لیا تھا اور ان دونوں کا داخلہ سماجیات کے شعبے میں ہوا تھا اور آج ان کا پہلا دن تھا۔ بانڑی نے نازیہ کو اپنے کمرے میں بٹھایا جلدی سے تیاری کی اور دونوں سہیلیوں نے ناشتہ کرکے جامعہ کا رخ کیا۔ بانڑی کے والد کی خواہش تھی کہ بانڑی ڈاکٹر بن کر اپنے قوم کی خدمت کریں جبکہ چراغ کسی سماجی شعبے میں اپنی خدمات قوم کے لئے وقف کریں۔لیکن بانڑی نے سماجی شعبے کا انتخاب کیا کیونکہ وہ سماج کی گہرائی میں جا کر اپنے اصل مسائل سے آشکار ہونا چاہتی تھی۔ اس مقصد کو منتخب کرنے کے لئے اسکے والد نے اسکے مقصد کے سامنے سر تسلیم خم کرکے اسے اجازت دی اور بس اتنا کہا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول تک محنت کریں۔

تین سال اتنے سکون سے گزر گئے,چراغ بھی میٹرک پاس کرکے کالج کے داخلوں کے انتظار کرتا رہا اور بانڑی فائنل ائیر کی طالبہ بن گئی۔ ایک دن وہ اکیلی جامعہ جارہی تھی جب وہ جامعہ کے نزدیک پہنچی جہاں اسکے ابا کا اسپتال تھا۔ وہ دیکھتی ہے کہ ایک ویگو گاڑی میں چند مسلح افراد ایک شخص کو جس کے چہرے پر ماسک لگا ہوا تھا کو گھسیٹ کر لے جارہے ہیں۔ ماسک کی وجہ سے وہ اس شخص کو پہچاننے سے قاصر رہی لیکن وہ اپنے دل میں سوچتی رہی کہ کتنے ظالم لوگ ہیں جو ایک نہتے شخص کو مار مار کر اپنے گاڑی میں بٹھارہے ہیں اور کتنا ظالم سماج ہے جو مسلح افراد کے ڈر سے اس معصوم انسان کو بچانے سے کترا رہے ہیں۔ انہی سوچوں میں گم وہ جامعہ پہنچی اپنے کلاسز لی اور گھر کے لئے نکل گئی۔ جب بانڑی گھر پہنچی تو صرف ماں موجود تھی جبکہ چراغ ابھی کالج سے گھر نہیں لوٹا تھا اور والد پانج بجے کے وقت اسپتال سے گھر کے لئے نکلتے ہیں۔

گھر پہنچ کر اس نے واقعے کا ذکر اپنی ماں سے کیا تو ماں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک اس ظالم ریاست اور اسکے حکمرانوں کے خلاف کوئی موثر آواز نہ اٹھائی جائے یہ لوگ یوں ہی لوگوں کو لاپتہ کرتے رہیں گے اور ان لوگوں کی خاموشی اور خوف انہیں زندگی سے دور کرتا جارہا ہے یہ لوگ بس سانس لینے والے جانور ہے ان میں انسان جیسی خوبیاں موجود نہیں , یہ غلام ہے اور غلام انسان نہیں ہوتے بس کھانے پینے کے لئے زندہ رہتے ہیں اور ان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔

بانڑی نے ماں کی باتوں کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ آزاد ریاستوں کے لوگ زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لئے نئے نئے ترکیبیں ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور ہم جیسے غلام لوگ بس موت کے انتظار میں زندہ رہتے ہیں۔

باتوں باتوں میں وہ کھانا کھا کھاچکی تھی اور سستانے کے لئے اپنے کمرے میں چلی گئی اور لیٹتے ہی نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا لیکن جب وہ سو کر اٹھی اور موبائل کھولا تو اسکے پیر کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی ۔یہ میسج چراغ کا تھا جو آج صبح اپنے والد کے ساتھ کالج جاتے ہوئے اغوا ہوا تھا اور انہی نامعلوم افراد نے اسے چند گھنٹے اپنے پاس بٹھا کر اسے چھوڑ دیا اور اسکے والد کو نہیں چھوڑا۔ چراغ گھر پہنچا تمام تفصیلات ماں اور بہن کو بتائی تو وہ بہت پریشان ہوئے کہ اس انجان شہر میں ایک تو کوئی سہارا نہیں ہم کس کے پاس فریاد لیکر جائیں کہ ہمارا سربراہ دن دہاڑے راستے میں خونخوار درندوں کے ہاتھوں لاپتہ ہوا ہے۔

ایک ہفتہ گزر گیا انہوں نے متعلقہ تھانے جاکر تمام تفصیلات بتائی لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی مجبورا وہ کوئٹہ گئے اور تمام تفصیلات لاپتہ افراد کیمپ میں جمع کی اس دن کے بعد بانڑی اور ماں کی بقیہ زندگی کیمپ کی نذر ہوگئی جبکہ بانڑی کی والد کی گمشدگی کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں دھمکیوں سے مجبور ہو کر انہوں نے اپنے بھائی کو محفوظ مقام پر منتقل کیا اور اپنی زندگی بس سڑکوں اور کمیشنوں کے سامنے گزاری۔

ایک دن وہ لاپتہ افراد کے کیمپ میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اسے کسی نامعلوم نمبر سے میسج آیا کہ آزاد قوموں کے افراد زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لئے نئے نئے ترکیبیں ڈھونڈ لاتے ہیں اور ہم جیسے غلام لوگ بس مرنے کے لئے زندہ رہتے ہیں لیکن میں مرنے کے لئے زندہ رہنے کے بجائے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے مرنے کو ترجیح دونگا اور آج میں ایک ایسی راہ پر چل پڑا ہو جہاں سے واپسی ممکن نہیں لیکن اتنا تم سے وعدہ کرتا ہو کہ ہماری جدوجہد کسی بانڑی کو یتیم نہیں بنائے گی,کسی چراغ کو مجبور نہیں کریں گی کہ وہ پہاڑوں کا رخ کریں ہاں آج میں زندہ رہنے کے لئے موت کو ترجیح دونگا اور جب لوٹ کر آونگا تو ہمارے لوگ بھی زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لئے ترکیبوں کو سامنے لائیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں