بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں حالیہ دو دنوں کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جس طرح عوامی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا قانون ہاتھ میں لیا گیا یہ عمل قابل مذمت ہے اگر بلوچستان کے اکابرین رہنما سیاسی کارکنان ایسا کرتے تو انہیں آپریشن ظلم و زیادتیوں ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑتا یہ امر قابل تشویش ہے کہ تعصبانہ رویہ 77 سال سے روا رکھا گیا ہے بڑے صوبوں کی سیاسی جماعتیں اکابرین کارکنان قانون کی دھجیاں اڑائیں شرپسندی کریں عوامی املاک کو نقصان پہنچائیں ان کیلئے نرم گوشہ روا رکھا جاتا ہے جبکہ اگر بلوچ یا بلوچستانی عوام اپنے انسانی حقوق کیلئے پرامن جدوجہد یا آواز بلند کریں تو انہیں غداریا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے ایسا رویہ قابل مذمت ہے
“ آج ناانصافیوں احساس محرومی اور قومی نا برابری جیسے رجحانات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے حقوق کی آواز بلند کرنے پر بلوچستان میں آپریشنز بھی کئے گئے ناروا سلوک روا رکھا گیا آمروں کا دور ہو یا سول ڈکٹیٹرز کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ ظالمانہ پالیسیاں ہی روا رکھی گئیں۔”
انہوں نے کہا کہ بی این پی کے مرکزی صدر سردار اختر جان مینگل کی قیادت میں ایوانوں عوام کی عدالت میں بلوچستان کا کیس غیر متزلزل انداز میں سیاسی بنیادوں پر لڑ رہے ہیں بلوچستان کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا ہوا ہے آج جس طرح سڑکوں پر بڑے صوبوں سے تعلق رکھنے والے عوام جس طرح قانون شکنی کے اقدامات کے مرتکب بن رہے ہیں انتظامیہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کارویہ ان کے ساتھ رویہ انتہائی عاجزانہ ہے اگر بلوچستان میں ایسا کیا جاتا تو سینکڑوں لوگوں کو ماروائے قانون قتل و غارت کا نشانہ بنایا جاتا اور زندانوں میں قید ہوتے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں بلوچستان کے بزرگ عظیم قوم پرست رہنماراہشون سردار عطااللہ خان مینگل نے ایوبی آمریت میں بلوچستان کے حقوق کیلئے آواز بلند کی تو اس پاداش میں انہیں اپنی نشست سے ہاتھ دھونا پڑا اورطویل عرصہ تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اسی طرح دیگر سیاسی اکابرین کے ساتھ بھی ماضی میں نامناسب رویہ روا رکھا گیا اپنی حق حاکمیت کاجب بھی سیاسی انداز میں ذکر کیا گیا غداری ملک دشمن کے القابات لگائے گئے ملٹری آپریشنز میں طاقت کا استعمال کیا گیا اور معاملات کو بہتری کی بجائے ابتری کی جانب دھکیلا گیا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کے ساتھ یکساں سلوک کرے اگر ایسا نہ کیا گیا تو یقینا یہ ناانصافیوں میں اضافہ یقینی اور فطری عمل ہوگا۔