کینیڈا نے پیر کو کہا ہے کہ وہ ایک چینی سفارت کار کو ملک بدر کر دے گا، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے بیجنگ پر تنقید کرنے والے ایک کینیڈین قانون ساز کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی تھی، جس سے دونوں ممالک کے درمیان ایک نئی سفارتی کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی نے چینی سفارت کار کو ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کینیڈا ’اپنے اندرونی معاملات میں کسی بھی قسم کی غیر ملکی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ہم اپنے اس عزم پر قائم ہیں کہ ہماری جمہوریت کا دفاع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔‘
میلانیا جولی نے مزید کہا کہ کینیڈا میں غیر ملکی سفارت کاروں کو ’خبردار کیا گیا ہے کہ اگر وہ اس قسم کے رویے میں ملوث ہوئے تو انہیں گھر بھیج دیا جائے گا۔‘
اس اقدام سے چین اور کینیڈا کے پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات میں مزید تلخی آگئی ہے۔
دوسری جانب چین نے کہا کہ کینیڈا نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو ’سبوتاژ‘ کر دیا ہے۔
کینیڈا میں چینی سفارت خانے کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا: ’چین بغیر ہچکچائے جوابی اقدامات اٹھائے گا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تمام نتائج کینیڈا کو برداشت کرنا ہوں گے۔‘
ساتھ ہی چینی سفارت خانے کی جانب سے کینیڈا سے اس فیصلے سے پیچھے ہٹنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ اس نے بین الاقوامی قانون اور سفارتی اصولوں کی خلاف ورزیوں پر باضابطہ احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ ساتھ ہی اس نے کینیڈا پر ’جان بوجھ کر تعلقات کو خراب کرنے‘ کا الزام لگایا ہے۔
اس معاملے سے واقف ذرائع کے مطابق ٹورنٹو میں واقع چینی قونصل خانے کے ایک اہلکار ژاؤ وی کو پانچ دن کے اندر کینیڈا چھوڑنے کو کہا گیا ہے۔
ان کی بے دخلی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب کینیڈین رکن پارلیمان مائیکل چونگ کے حوالے سے مقامی میڈیا نے انکشاف کیا تھا کہ چینی انٹیلی جنس نے سنکیانگ میں چینی حکام کے اقدامات کو نسل کشی قرار دینے کی مذمت کرنے والی ایک قرارداد کے لیے فروری 2021 میں ہونے والی ووٹنگ کے حوالے سے مائیکل چونگ پر پابندی کے ساتھ ساتھ ہانگ کانگ میں چونگ اور ان کے رشتہ داروں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔
’گلوب اینڈ میل‘ اخبار نے گذشتہ ہفتے کینیڈا کی سکیورٹی انٹیلی جنس سروس کی ایک دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس اقدام کا مقصد یقینی طور پر اس رکن پارلیمنٹ کو ایک مثال بنانا اور دیگر افراد کو عوامی جمہوریہ چین کے خلاف پوزیشن لینے سے روکنا تھا۔‘
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کو حالیہ مہینوں میں ہونے والے ان انکشافات کے بعد کہ چین نے کینیڈا کے 2019 اور 2021 کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی، بیجنگ کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔
بیجنگ اور اوٹاوا کے درمیان تعلقات 2018 میں اس وقت کشیدہ ہوئے تھے جب کینیڈا نے چینی کمپنی ہواوے کے ایک اعلیٰ ایگزیکٹو کو گرفتار کیا، جس کے بعد بظاہر انتقامی کارروائی میں چین میں دو کینیڈین شہریوں کو حراست میں لیا گیا۔
ان تینوں کو بعدازاں رہا کر دیا گیا، لیکن چین کی جانب سے کینیڈا پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ اس کا موقف امریکہ کی چین سے متعلق پالیسی سے ہم آہنگ ہے جبکہ کینیڈا کے حکام نے چین پر مداخلت کا الزام لگایا ہے۔
چین کے سفیر کو گذشتہ ہفتے مداخلت کے تازہ ترین الزامات پر طلب کیے جانے کے بعد، جمعے کو بیجنگ نے اسے کینیڈا کی طرف سے ’بے بنیاد بہتان اور ہتک عزت‘ قرار دیا۔
چینی وزارت خارجہ نے اصرار کیا کہ اس سکینڈل کو ’کچھ کینیڈین سیاست دانوں اور میڈیا نے بڑھاوا دیا۔‘