اگر یہی واقعات بلوچستان میں پیش آئے تو اس کے نتیجے میں اس کی آدھی آبادی ہلاک ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
آزادی پسند رہنماء اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے پاکستان کی موجودہ حالت کی بلوچستان سے موازنہکرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں بنیادی انسانی حقوق معطل ہیں۔ قوم پرست سیاسی جماعتیں اور سیاست پر قدغن ہے جبکہہزاروں لوگ غیر اعلانیہ، غیر قانونی، اور خفیہ حراستی مراکز میں قید ہیں اور ہزاروں کو دوران حراست قتل کیا گیا ہے۔ ان کا واحدجرم پرامن سیاست کی وکالت ہے جنہوں نے بلوچ قومی آزادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جیسے مسائل پر بات کی۔ پنجاب،یعنی حقیقی پاکستان میں مظاہروں کے نتیجے میں اعلیٰ فوجی اور سرکاری اہلکاروں کے گھروں کے ساتھ ساتھ فوجی تنصیبات کوبھی نذر آتش کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود پاکستانی فوج نے مظاہروں کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔پاکستانی ریاست کی جانب سے ان واقعات پر ردعمل کی کمی یہ بتاتی ہے کہ بلوچ، سندھی اور پشتون سمیت دیگر قوموں کو اپناموازنہ پنجاب سے کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ ہم ایسا کچھ نہیں کہہ رہے کہ ہمیں پنجاب کی طرح سلوک کا مستحق سمجھا جائے۔ ہم غلام ہیں اورہمیں اپنی حیثیت کا احساس ہے۔ پاکستانی فوج ہمارے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کر رہی ہے، قابض فوج یہی کرتی ہے۔ لیکن اگرہمارا دشمن مہذب ہوتا تو وہ انسانی حقوق کی ایسی صریح خلاف ورزیوں میں ملوث نہ ہوتا۔ اس میں انسانی اور قومی اقدار کافقدان ہے، اس نے اسے درندہ بنا دیا ہے۔ میرا پیغام بلوچ قوم کے لیے ہے۔ جو پنجاب میں ہوا وہ بلوچستان میں ہوتا تو آدھا بلوچستانمارا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ پنجابی مظاہرین دہشت گردانہ طرز کی تخریب کاری میں مصروف ہیں، جبکہ فوج خاموش ہے۔ دریں اثنا، بلوچستانکو عام حالات میں بھی شدید ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اپنے حقوق کی وکالت کرنے والے افراد کو یا تو نامعلوم زندانوں میںقید کیے جاتے ہیں یا مارے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد افراد کو فیک انکاؤنٹرز میں مارا گیا ہے۔
بلوچ رہنما نے کہا کہ پچھلے ستر سالوں میں بلوچ عوام کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ایوب خان کے دور میں بھی غوث بخشبزنجو، معروف وفاق نواز رہنما کو ون یونٹ تحلیل کرنے کی وکالت کرنے پر ایک جملہ تحریر کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔
“لیجنڈری بلوچ رہنما شہید غلام محمد بلوچ کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ تاہم اسے عدالت کے احاطے سے دوبارہ حراست میں لےلیا گیا اور بعد ازاں اس کی اور اس کے ساتھیوں کی بیدردی سے مسخ شدہ لاش ملی۔”
ڈاکٹر اللہ نذر نے یاد کرتے ہوئے کہا، “جب پولی ٹیکنک راولپنڈی کے طلباء نے ‘ایوب کتّا ہے‘ کا نعرہ لگایا تو فوج نے اپنی بندوقیں نیچےکر دیں اور کہا، ‘یہ ہمارے اپنے بچے ہیں۔‘ فیض آباد دھرنے کے دوران ریاست غیر فعال رہی اور کہا گیا کہ مظاہرین ہمارےہم وطنتھے، فوج نے ان میں پیسے بٹورے، جب کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی کے کارکنوں نے استثنیٰ کے ساتھ لاہور کور کمانڈر کے گھر اور اپنےہیروز کے مجسموں کو نذرآتش کیا۔
انہوں نے کہا کہ انصاف کی لڑائی میں بلوچوں کو فوج کے ہاتھوں مارا جارہا ہے، پرامن مظاہرین کو مارا پیٹا جاتا ہے لیکن عدالتیںخاموش ہیں۔ فوج بلا چون چرا بلوچ عوام کو ذبح کر رہی ہے۔ بلوچ پارلیمنٹرینز خاموش ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ فوج پنجاب کے لیےوقف ہے، اور پاکستان فوج کے کنٹرول میں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بلوچستان میں فوج کے کارناموں سے واقف ہیں، پھر بھی وہ اپنےذاتی مفادات یا منافقت کے لیے خاموش ہیں۔
ہماری قوم کے لیے یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ جہاں فیصل نصیر کی بلوچستان میں تعریف کی گئی، وہیں پنجاب میں انھیں’ڈرٹی ہیری‘ قرار دیا گیا۔ یہ تضاد بلوچ نوجوانوں اور بلوچ قوم کے لیے جاگنے کی کال کا کام کرے۔