نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ پارٹی کسی حادثے کی پیداوار نہیں بلکہ یہ سنجیدہ سیاسی کارکنوں کی طویل اور صبر آزما جدوجہد کا ثمر ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان سمیت اس ریجن میں بڑے بڑے قدآور شخصیات کوشش اور کاوش کے باوجود سیاسی جماعت تشکیل دینے میں کامیابی حاصل نہ کرسکے مگر یہ امر نیشنل پارٹی کے لیے اعزاز اور تاریخی شرف کی بات ہے کہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے قومی پلیٹ فارم سے فارغ التحصیل عام سیاسی کارکناں کی جانب سے تشکیل دینے والی جماعت آج نہ صرف بلوچ سیاست کے اندر ایک آفاقی حیثیت رکھتی ہے بلکہ پاکستان کے مین اسٹریم سیاست میں اپنی روشن خیالی اور ترقی پسندانہ افکار کی بدولت ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ ہماری قیادت جذباتی تقاریر، بھڑک بازی اور ایڈوانس نعروں کے سہارے نہ تو سیاسی آکسیجن لینے پر یقین رکھتی ہے اور نہ ہی اپنی قوم کو اندھیرے میں رکھنے کو سودمند سمجھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی معروضی حالات اور زمینی حقائق کے پیش نظر اپنی فہم و فراست کے تحت عقلی و منطقی پالیسی مرتب کرنے کا شیوہ رکھتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ پاکستان اپنے قیام سے لیکر آج تک بدقسمتی سے ایک سرکل پر عمل پیرا ہے، ہر نکتہ آغاز کے دس سال بعد وہیں سے دوبارہ آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان کے نظام کو دیکھتے ہوئے یہاں پر لوگ جمہوریت سے بدظن ہوگئے مگر مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے اندر جمہوریت کبھی بھی اپنی حقیقی روح کے مطابق نافذ ہی نہیں ہوئی بلکہ جان بوجھ کر جمہوریت کے پودے کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا گیا، یہاں پر ایک استحصالی نظام نافذ ہے، جو قوموں کے وجود، زبان، ثقافت اور حقوق سے انکاری ہے بلکہ حقیقی جمہوریت میں ایسے استحصال کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔
ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ پاکستان کے لیے ایک واحد راستہ بچا ہے کہ وہ اصلاح کی طرف گامزن ہوتے ہوئے اپنے شہریوں کے قومی اور شہری حقوق کے تقاضے پورے کرتے ہوئے انہیں آبرومندانہ خوشحال زندگی گزارنے کے مواقع میسر کرے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معاشی بدحالی، سیاسی عدم استحکام، ناقص عدالتی نظام، معاشرتی انتشار اور عالمی تنہائی کسی ایک مخصوص حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ سب یہاں پر بار بار مارشل لاء اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انتخابات اور حکومتی نظام میں بے جا مداخلت کی دین ہے۔ یہاں پر راتوں رات مصنوعی جماعت قائم کی جاتی ہے، من پسند انتخابات کے ذریعے من پسند نتائج حاصل کیے جاتے ہیں، من پسند جماعت کو حکومت سونپی جاتی ہے اور من پسند نتائج و مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں جس کا حتمی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان آج اس نہج تک پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو ایک نہ ایک دن یہ سوچنا پڑے گا کہ بار بار کی اِن غیر منطقی اور عوام دشمن پریکٹس کے نتائج انہیں کیا ملا ہے۔