بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے 28 مئی کے حوالے سے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ یوں تو بلوچستان تاریخی حوالے سے عالمی و علاقائی سامراجی طاقتوں کےلیے لوٹ کھسوٹ اور جبر و تشدد کا مرکز رہا ہے مگر چند اہم واقعات جو مجموعی سماجی حالات کو مزید تاریکیوں کی جانب دھکیلنے کا باعث بنے ایسے کئی واقعات میں سے ایک 28 مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کی صورت میں پیش آنے والے تجربات بھی تھے جنہیں بلوچستان کے علاقے چاغی میں آزمایا گیا۔
ترجمان نے کہا کہ دہائیوں پر محیط جبر کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ اس خطے میں موجود بلوچ و دیگر مظلوم قومیتوں کی نسل کشی حکمران طبقے کی اولین ترجیحات میں شامل رہی ہے. تاکہ بلوچ سرزمین پر حکمران طبقے کا ناجائز قبضہ جاری رہے اور بلوچستان کے قدرتی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار میں کسی قسم کی مشکلات و رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے جس کےلیے واحد حل حکمران طبقے نے بلوچ قوم کےلئے ریڈ انڈینز کی طرح نسل کشی کی نت نئی پالیسیوں کی صورت میں نکالا۔
انہوں نے کہاکہ دھماکوں کے لیئے بلوچستان کی سرزمین کا انتخاب بھی آنے والی کئی نسلوں کو تباہی کی جانب دھکیلنے کی سازشوں کا حصہ تھا۔ جس کے ذمہ دار نہ صرف عالمی طاقتیں ہیں بلکہ تب کے اسٹیبلشمنٹ کا حصہ مقامی بلوچ اشرافیہ بھی برابر کے شریک جرم ہیں۔ مقامی سہولت کاروں نے نسل کشی کی ان پالیسیوں کو نہ صرف عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ ایٹمی دھماکوں پر جشن بھی منائے اور ان دھماکوں کی صورت میں آنے والے وقتوں میں کئی نسلوں کو متاثر کرنے کے حقائق پر بھی پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوششیں کی گئیں۔
مزید کہا کہ وہی مقامی حکمران قوم پرستی کی آڑ میں آج بھی تمام سماجی و سیاسی اداروں میں سرایت کر گئے ہیں اور بلوچ سماج کے ساحل و وسائل پر قابض ہیں۔ موجودہ عہد میں نسل کشی کے نئے طریقے اپنا کر دن دہاڑے نوجوانوں کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنانا، مسخ شدہ لاشیں تحفے میں دینا، پیریفریز میں جاری جنگی جارحیت میں مسلسل اضافے، مقامی لوگوں سے روزگار کے تمام ذرائع چھیننا اور خودکشیوں میں اضافے بلوچ قوم کے اجتماعی سیاسی و معاشی قتل عام کے مترادف ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ان کالونیل پالیسیوں سے واضح ہوتا ہے کہ آج کی نوجوان نسل پر زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور نسل کشی پر محیط حکمرانوں کے ان عزائم کے خلاف سخت حالات ہم سے زیادہ شعوری بیداری و نظریاتی بنیادوں پر سیاسی عمل کا حصہ بننے کا تقاضا کرتے ہیں۔ بصورت دیگر عالمی و مقامی حکمران جبر پر قائم اس نظام کے دفاع میں مزید معصوم لوگوں کی جانوں کے زیاں کا باعث ثابت ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل اپنے سماج میں قائم جبر کے تمام آلات کے خلاف شعوری بنیادوں پر سیاست کا حصہ بنے اور تمام سماجی اداروں سمیت ساحل و وسائل کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کرے ۔