آواران سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ اسکول ٹیچر نجمہ کی خودکشی کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے۔ اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے نجمہ کے والد دلسرد بلوچ نے بتایا ہےکہ میری بیٹی کو اپنے گاؤں کے بچوں کے مستقبل کا بڑی فکر رہتی تھی کیونکہ پورے علاقے میں ایک بھی اسکول نہیں تھا۔ اس نے اپنی جمع پونجی سے گھر کے سامنے جھونپڑی بنا کر خود ہی بچوں کو پڑھانا شروع کردیا۔ گزشتہ تین برسوں میں جھونپڑی نما اسکول کے بچوں کی تعداد تین سو تک پہنچ گئی تھی، لیکن آج یہ سب بچے ایک بار پھر تعلیم سے محروم ہوگئے۔ یہ الفاظ بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقے گیشکور کی رہائشی 22 سالہ نجمہ کے والد دلسرد بلوچ کے ہیں جن کی بیٹی نے 15 مئی کو گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کر لی تھی۔ دلسرد بلوچ کہتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو اپنی جان لینے پر مجبور کیا گیا۔ یہ خودکشی نہیں بلکہ قتل ہے۔ انہیں لیویز اہلکار اور ان کے دو ساتھی ہراساں کررہے تھے۔ ’میری بیٹی نے اپنی اور خاندان کی عزت بچانے کے لیے جان دی۔ سیکڑوں بچوں کو مفت پڑھانے والی نجمہ کی نا گہانی موت پر نہ صرف گاو¿ں بلکہ پورے ضلع میں غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دلسرد بلوچ نے بتایا کہ دو سال پہلے بھتیجے سے نجمہ کی شادی کرائی اس کے بعد بھی اس نے بچوں کو پڑھانا بند نہیں کیا بلکہ دبئی میں موجود شوہر سے بھی رقم منگوا کر اس پر خرچ کرتی تھیں۔ نجمہ کے والد چھوٹے زمیندار ہیں اور وہ گھر کے اخراجات پورا کرنے کے لیے ایرانی تیل کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والی زمباد گاڑی بھی چلاتے ہیں۔ دلسرد بلوچ نے بتایا کہ ’بیٹی مجھ سے بھی اسکول کے لیے رقم مانگتی رہتی تھی۔ تین سال کے دوران اس نے دو سے تین لاکھ روپے اسکول پر خرچ کیے۔ دو بار اسکول تیز ہواو¿ں اور سیلاب کی وجہ سے تباہ بھی ہوا اس کے باوجود بھی اس نے ہمت نہیں ہاری۔ دلسرد بلوچ کے مطابق کچھ عرصہ پہلے لیویز اہلکارکی جانب سے تنگ کرنے پر بیٹی نے شکایت کی تو میں نے اہلکار کو بلایا جس پر اس نے معافی مانگ لی، لیکن اس کے بعد بھی لیویز اہلکار باز نہیں آیا۔ وہ ٹیلیفون کر کے بیٹی کو تنگ کرتا تھا۔ جب وہ سم تبدیل کر دیتی تو نئے نمبر پر بھی اس کی کال آ جاتی۔ ان کا کہنا ہے کہ نجمہ کا شوہر دبئی میں ملازمت کرتا ہے جبکہ میں کام کے سلسلے میں کبھی گھر سے باہر رہتا ہوں اس لیے نجمہ دن کو اسکول اور شوہر کے گھر کے کام کر کے رات کو اپنی والدہ اور بہن کے پاس ٹھہرتی تھیں۔ خودکشی سے چند دن پہلے نجمہ نے گھر والوں کو بتایا کہ لیویز اہلکار اور اس کے دوست انہیں ہراسا ں کر رہے ہیں اور غلط تعلق قائم کرنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بالآخر میری بیٹی لیویز اہلکار اور اس کے ساتھیوں کی ہراسگی سے اتنی تنگ آ گئی کہ ایک دن سکول سے واپس آ کر اس نے گلے میں پھندا ڈال کر اپنی جان دے دی۔ نجمہ نے بلیک بورڈ پر انگریزی میں آخری الفظ یہ لکھے تھے(ترجمہ: میری زندگی کی کہانی یہاں آکر ختم ہوگئی)۔ نجمہ بلوچ کی موت پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بھی سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ حکومت سے معاملے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
(بشکریہ : زین الدین احمد، اردو نیوز کوئٹہ)