نجمہ بلوچ کی خودکشی
ٹی بی پی اداریہ
پاکستان نے بلوچ انسرجنسی کو ختم کرنے کے لئے مختلف پالیسیاں ترتیب دی ہیں، جن کے اثرات سے بلوچستان میں روزانہ کے بنیاد پر نئے حادثات اور واقعات جنم لے رہے ہیں۔
بلوچستان کے سب سے پسماندہ اور شورش زدہ ضلع آواران کے علاقے گیشکور میں کچھ دن قبل نجمہ بلوچ، جو پیشے سے استانی تھیں نے خودکشی کرلی۔ خودکشی کی وجوہات یہ بتائے جارے ہیں کہ بلوچستان لیویز کے اہلکار نور بخش کی طرف سے نجمہ بلوچ کو پاکستان فوج کے ملٹری انٹیلیجنس کے لئے، بلوچ جہد آزادی کے خلاف کام کرنے کے لئے سخت مجبور کیا جارہا تھا اور دھمکیاں دی جارہی تھیں، جس کے سبب انہوں نے خودکشی کرلی۔
نجمہ بلوچ کا واقعہ بلوچستان میں ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ گروہ، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹر سروس انٹیلیجنس سے وابستہ اہلکارتسلسل سے ایسے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔ اِن گروہوں کو بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے بدلے کھلی چھوٹ دی گئی ہے جس سے بلوچستان میں المناک واقعات جنم لے رہے ہیں۔
بلوچ پالیمانی جماعتیں، سول سوسائٹی تنظیمیں، انسانی حقوق کے ادارے تسلسل سے ایسے واقعات پر احتجاج کا راستہ اختیار کرکے سخت تشویش کا اظہار کررہے ہیں لیکن حکومت بلوچستان اور پاکستان کی وفاقی حکومت اِن واقعات کو روکنے میں ناکام ہوچکا ہے۔
اِن واقعات سے بلوچستان میں بے چینی بڑھ رہی ہے جو کسی بھی وقت بڑے احتجاج کا سبب بن سکتی ہے۔ پاکستان کے ریاستی اداروں کو اپنے پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ اِن پالیسیوں سے بلوچ قومی تحریک ختم نہیں ہوگی بلکہ پاکستان اور بلوچ عوام میں دوریاں بڑھیں گی اور اُن کی ہمدردیاں بلوچ قومی آزادی کی تحریک سے وابستہ ہوں گے۔