میرا بھائی جاوید جان
تحریر: رشیدہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج بہت عرصہ گزرنے کے بعد میں چھوٹی سی کاوش کررہی ہوں کہ اپنے گھر کے مہربان دوست پر کچھ لکھ سکوں ، وہ جو ہمارے گھر کا چراغ تھا، ہم سب کا امید تھا، بہن بھائیوں کا دوست، ماں باپ کا سہارا ، ہمیشہ خوش مزاج، خوش اخلاق اور ہر کام میں صبر و تحمل رکھنے والا، پیار و شفقت سے ہمیں سمجھانے والا مہربان دوست، ہمارے ہی غلطیوں پر بڑے خوش مزاجی اور محبت کے ساتھ تربیت کرنے والا، باپ جیساں شفقت سے پیش آنے والا، ہم چاہے جتنی بھی غلطیاں کرتیں وہ ہمیں پیار اور اطمینان سے سمجھاتا۔ گھر میں بڑے سے لے کر چھوٹے تک سب کے ساتھ خوش مزاجی سے بات کرتا، بڑوں کا حترام کرتا ، وہ ایسا تھا کہ جیسے صبر کا ایک بڑا چٹان تھا وہ اپنے مثال آپ ہی تھا۔
جی ہاں میں اپنے پیارے بھائی جاوید جان کی بات کررہی ہوں۔ جاوید جان اپنے سے زیادہ دوسروں کے بارے میں سوچتا تھا، ہمیشہ دوسروں کے کام میں آنے والا ، ہر وقت قوم اور وطن کے بارے میں سوچتا تھا۔ یقیناً عام معاشرے یا ماحول میں جتنا بھی حق کو جان لیں لیکن ان کے اوپر سختیاں ہوتی ہیں جیسے کہ ہمارے ماحول میں سب سخت مزاج سختی سے پیش آتے باپ، چچا سب لیکن بھائی جان ہی تھا جو سب کا جواب ہنس کر بڑے پیار سے دیتا ، خاص کر جب وہ اپنے تنظیم کے سرگرمیوں میں مصروف عمل تھا لوگ انکی شکایت ہمیشہ ابو اور چاچا سے کرتے تو ہمارے لئے قیامت آجاتی کہ اب بھائی جان کو ڈانٹ پڑے گی۔ ہم بہن ہوتے ہی ایسے ہیں اپنے بھائیوں کی جان کے لیے پریشان ہوتی لیکن ایک بھائی جان ہی تھا کہ سب کا جواب بڑے آرام سے دیتا ، ساتھ ساتھ اپنا کام سرانجام دیتا ۔ ہم بہنوں کو اس بات کی خوشی بلکہ فخر ہے کہ ہم اپنے بھائی جان کے ساتھ ہر سختی، مشکل گھڑی اور ہر قدم پر ساتھ رہے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن بھائی جان اپنے کام اور مقصد میں مگن تھے اور آخر وہ دن آگیا ہم کسی اور جگہ پر تھے اور بھائی جان پہاڑوں کا رخ کرگیا تھا اور اس کے بعد یہ پیاسی آنکھیں ہمارے پیارے مہربان بھائی جان کے لیے ترستے رہے۔
وہ اپنے مقصد، کام، وطن کی خدمت میں مگن تھا بس ہم کبھی کبھی فون سے ان کے باتیں سنتے اور وہ اپنی ذاتی زندگی چھوڑ کر سب کچھ وطن پر قربان ہوگیا۔
اور میں بتاتی چلوں کہ ہمیں پتہ تو تھا بھائی جان تنظیموں میں کام تو کرتے ہیں لیکن یہ نہیں کہ اسٹوڈنٹ اداروں میں ، کہ وہ ایک قومی سرمچار ہیں، گھر کے اس سخت ماحول میں اتنا بہادری سے اپنے کام سر انجام دیتا انکے دوستوں کے بقول جو کہ آپنے آرٹیکلز میں بیان کیا تھا جاوید جان کے اوپر جتنا سختی تھا ہمیں اندازہ تو تھا لیکن پھر بھی ایسی محنت کے ساتھ اپنا کام سر انجام دیتا۔ بقول شہید دلجان جس نے بھائی جان کے اوپر لکھا تھا، ایک دفعہ ایک شہر میں اکیلا ایک کام دشمن پر حملہ کیا تھا جو بعد میں خود اس جگہ کو دیکھا اور جاوید جان کو تنقید کیا آپ خیال کرو یہ کیسا خطرناک جگہ ہیں رسک نہیں اوٹھاوں آئندہ خیال سے ایسا کام نہیں کرنا جس سے آپ کی جان کو خطرہ ہو جیسے دیکھ کر میں حیران ہوا جاوید جان نے کتنا مشکل کام سر انجام دیا تھا وہ بھی اکیلا، ایسے بہت سے واقعات ہیں جن میں بھائی جان نے بڑے بہادری سے کام کیا تھا۔
میں بتاتا چلوں وہ ایک سال کے اندر ایک فل گوریلا سرمچار جو سب کچھ اکیلا سنبھال سکتا تھا۔ انکے حوالے ایک سنگر یعنی ایک مورچہ دیا گیاتھا۔ شہادت کے بعد دوست ہمیشہ انہیں شہید جاوید عرف سنگر کے نام سے بلاتے ایسے ہی ہمارا گھر سے لیکر دوستوں اور پہاڑوں تک ان کا مزاج مہر محبت کا ایک الگ دستان تھا۔ ایک الگ کتاب تھا وہ ہمشہ بس اپنے دوست یاروں کے لیے بہت ہوتے تھے اس کے لیے کچھ سامان یا چیز بھیجتے وہ اپنے دوستوں کو دے دیتے کیونکہ بہادر لوگ کی پہچان یہی ہوتی ہے، اپنے سے زیادہ دوسرے لوگوں کے لیے ہوتے ہیں اپنا فکر کیئے بغیر قوم وطن کے لیے اپنی جان کا نظرانہ پیش کرتے ہیں۔
دنیا کے زندہ قوموں اور تاریخوں میں ہمیشہ ایسے فرزند پائے جاتے ہیں جو کہ اپنے وطن قوم کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں اور ہمشہ اپنے تاریخ لکھتے ہیں اکثر قومیں ان جیسوں کے بدولت دنیا میں زندہ رہتے ہیں اور ان جیسوں کے بدولت ان کی نسلیں اپنے سر زمین پر راج کرتے ہیں دنیا کے نقشے پر ان کا اپنا پرچم لہرایا جاتا ہے، ادھر بھی جاوید جان جیسوں نے اپنی ذاتی زندگی کو خیر باد کہہ کر سب کچھ اپنے وطن کے نام کرتے ہیں جو خود کو جلا کر ہمشہ اپنے قوم میں روشنی کرتے ہیں اور آخر قیامت کا وہ دن بھی آکر ہمارے گھر پر گرا ہر طرف لوگوں میں نیوزوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلا ہوا تھا بھائی جان کی شہادت کا بس اس دن کے بعد یوں لگا ہمارا سب کچھ ختم ہوگیا۔ ہمارا مہربان سب کو سنبھالنے والا خود ہمشہ کے لیے ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوا وہ اکیلا ہم گھر والوں سے نہیں گیا وہ پورے قوم سے گیا ہمارا بھائی جان ایسے ہی ہم سے جدا ہوا اور دنیا اور تاریخ میں امر ہوا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں