سہ فریقی وزرائے خارجہ اجلاس
ٹی بی پی اداریہ
سات مئی 2023 کو چین، پاکستان اور افغان وزرائے خارجہ کا پانچواں سہ فریقی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا، تینوں فریقوں نے علاقائی رابطوں کے مرکز کے طور پر افغانستان کی صلاحیت کو مکمل طور پر بروئے کار لانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے تحت سہ فریقی تعاون کو آگے بڑھانے اور سی پیک کو افغانستان تک مشترکہ طور پر توسیع دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔
افغان طالبان کے عبوری وزارت خارجہ کے نائب ترجمان حافظ ضیاء احمد نے سہ فریقی وزرائے خارجہ اجلاس کے تناظر میں کہا ہے کہ افغانستان نے ملٹی بلین چین پاکستان اکنامک کوریڈور میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے، جس سے خشکی میں گھرے ملک کو تجارت کا مرکز بننے اور سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں مدد ملے گی اور میگا انفراسٹرکچر پروجیکٹ میں شامل ہونے کا فیصلہ طالبان انتظامیہ کے جنگ زدہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لانے کے عزم کا حصہ ہے، جو افغانستان کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حصہ بننے اور افغانستان میں توانائی، ریلوے اور دیگر شعبوں میں مختلف منصوبوں کو لانے میں مدد کرے گی۔
سہ فریقی وزرائے خارجہ اجلاس، چین کے وزیر خارجہ چن گینگ کے اصرار پر ہوئی تاکہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان سلامتی کے حوالے سے خدشات کو دور کیا جاسکے، جو بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ صحافی اور تجزیہ نگار عبدالباسط خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چین کے لیے سب سے بڑی سکیورٹی تشویش بلوچ علیحدگی پسند گروپ ہیں، جو بیجنگ کو تنبیہ کرتا رہا ہے کہ وہ بلوچستان کے شورش زدہ صوبے میں اپنی سرمایہ کاری پر نظر ثانی کریں۔ چین خاص طور پر بلوچ لبریشن آرمی کے خودکش سکواڈ مجید بریگیڈ کے حوالے سے تشویش میں ہے۔
بلوچ تحریک کے سرکردہ رہنما ڈاکٹر اللہ نظر نے بھی دنیا کو چین کے عزائم سے متنبہ کرتے ہوئے کہا ہیکہ “ بلوچ اپنی قومی بقا کے لیے پاکستانی فوج کے خلاف برسرپیکار ہیں جبکہ گوادر میں چینی فوج “ پیپلز لیبریشن آرمی “ کی موجودگی علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کے لیے ایک نمایاں خطرہ ہے اور اگر انہوں نے اس پر توجہ نہ دی تو وہ ضرور پچھتائیں گے۔
چین اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے خطے کے مختلف ممالک میں معاشی اور سفارتی تعلقات کو مضبوط کررہا ہے اور خطے کے جن ممالک میں بلوچ پناہ لئے ہوئے ہیں اور اُن سے مدد کی توقع رکھتے ہیں، ان ممالک سے چین کی قربتیں بڑھ رہے ہیں جو بلوچ قومی تحریک کے مشکلات میں اضافہ کرسکتے ہیں لیکن بلوچ مسئلے کو حل کئے بغیر ، بلوچستان میں سرمایہ کاری کے منصوبے محفوظ نہیں ہیں، بلوچ قومی تحریک کے خلاف نئے محاذ کھولنے کے بجائے چین کو چاہیئے کہ بلوچ تحریک سے وابستہ اداروں سے براہ راست مزاکرات کرے اور پرامن تصفیے کی جانب قدم بڑھائیں جو دونوں قوتوں کے لئے بہتر فیصلہ ہوگا ۔