جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا طویل احتجاجی کیمپ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آج 5043 ویں روز جاری رہا۔
اس موقع پر سوراب سے محمد عالم بلوچ، عبدالحمید بلوچ اور دیگر مرد خواتین نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاست اور اسکے اعلیٰ کار بلوچستان کے کونے کونے میں ہر اس آواز کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو سچائی اور حقوق کے لئے اٹھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے بڑھتی ہوئی بے چینی ٹوٹتے ہوئے بنیادی ڈھانچے اٹھتی ہوئی ریاستی طاقت اور فضا میں موجود اس انسان کو جنجھوڑ دیتی ہے چند ماہ کے وقفے کے بعد بھی یہ زوال واضح ہے کہ ریاستی دہشتگردی اور قومی اور نسلی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا خوف صاف محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
انکا کہنا تھا کہ یہ غربت اور محرومی بلوچستان کے دیگر حصوں میں اس سے کہیں زیادہ ہے اور 75 برس سے زیادہ عرصہ قبل الحاق پاکستان سے ابتک پاکستانی ریاست اور اس کے مقامی ایجنٹوں نے اس دشوار گزار اور پسماندہ علاقے کے محکوم عوام کی اذیت میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔
ماما نے کہا کہ ریاست اور محکوم قومیتوں میں لڑائی بلوچستان میں سب سے زیادہ شدید اور خون ریزی رہی ہے اس ملک کی تاریخ میں بلوچوں کی پرامن جدجہد انتہائی حیرت انگیز اور دلیرانہ رہی ہے۔ بلوچستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ پشتونون پر مشتمل ہے ان کی اکثریت بھی بلوچ عوام جیسی ذلت کا شکار صدیوں سے یہ لوگ پرامن طور پر مل جل کر رہتے ہیں اور حالیہ دور میں پیدا کی گئی کشیدگی کے باوجود انہوں نے اُن شیطانی منصوبوں کو خاک ملایا ہے –