بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹرنسیم بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات اچانک پیدا نہیں ہوئے ہیں بلکہ یہ حالات قوموں پر قبضہ ، قوم اور قومی وسائل کی استحصال، مذہب کا استحصالی اور نوآبادیاتی مقاصد کے استعمال جیسے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ پاکستان منزل اورسمت سے محروم ایک ایسی بے لگام ریاست ہے جس کی نہ کوئی تاریخ ہے اور نہ ہی کوئی تہذیبی پس منظر۔ اس ریاست نے اپنے قیام کے پہلے ہی دن یہ تہیہ کرلیا ہے کہ خطے کے دیگر اقوام کی سرزمین پر قبضہ کرکے اپنے نوآبادیاتی منصوبوں اور مقاصد کو مذہب کا جامہ اوڑھاکر قبولیت کا درجہ دلایا جائے گا۔ پاکستان اپنے مقاصد کی تکمیل میں وقتی طورپر کامیاب رہا کیونکہ اس وقت کے عالمی طاقتوں کو خطے میں ایک تنخواہ دار چوکیدار کی ضرورت تھی جو صرف پاکستان کی صورت میں ممکن تھا۔ لیکن اس سے پاکستان کے اندرونی تضادات میں بہرصورت اضافہ ہوتا رہا جنہیں پاکستانی فوج طاقت کے بل پر دباتا رہا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت مختلف تضادات کا مجموعہ ہے اور بلوچ پنجابی قبضہ گیریت سب بڑی تضا د ہے جو اپنی پختہ صورت میں پہنچ کر ناقابل مصالحت بن چکا ہے۔ اس کا حل صرف ایک فریق کے خاتمے کی شکل میں ممکن ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ بلوچ پاکستان تضاد کو بندوق کے زور پر وسیع نسل کشی اور استحصال کے ذریعے فتح میں بدل سکتاہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کا سارا زورعسکری طاقت کی بے دریغ استعمال پر ہے۔ گوکہ مفادات کے خانوں میں بٹی ہوئی عالمی طاقتیں بلوچ کے حق میں خاموش نظر آتی ہیں لیکن بلوچ پاکستان تضاد اتنی پختہ اور طاقتور بن چکا ہے جس نے قومی تحریک کو وسیع ہمہ گیریت عطا کی ہے۔ آج بلوچ سیاسی، سماجی، سفارتی اورعسکری میدان میں پاکستان کے خلاف بڑے پیمانے پر لڑ رہا ہے۔ اس سے عالمی طاقتوں کے مفادات آج نہیں تو کل ضرور متاثر ہوں گے اور انہیں بلوچ پاکستان تضادات کی حل کی جانب متوجہ ہوناپڑے گا۔
ڈاکٹر نسیم نے کہا ہے کہ پاکستان ہمیشہ تاریخ کے دوراہے پر کھڑی ریاست کی تاریخ رکھتا ہے اور ہر موڑ پر اسے شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ سنہ اکہتر ایک ایسی موڑ تھا جب پاکستان اور بنگالی تضاد اپنے منطقی انجام کو پہنچا اور متحدہ پاکستان ٹوٹ کر صرف مغربی پاکستان رہ گیا۔ اس نے پاکستانی اشرافیہ کی یہ گھمنڈ اور دو قومی نظریہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا کہ پاکستان ناقابل شکست ہے جس کے نظریاتی سرحدوں کی تحفظ کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لے لی ہے۔ بنگالی کے تضاد کے منطقی انجام تک پہنچنے کے باوجود پاکستان کے تضادات ختم نہیں ہوئے بلکہ اسے مغرب نے وقتی طور پر سہارا دیا تاکہ اس سے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جائے۔ اُس وقت بلوچ مسئلہ آب و تاب کے ساتھ موجود رہا۔ بنگلہ دیش سے شکست خوردہ فوج کا مورال بلند کرنے کے لیے اسے بلوچستان میں نسل کشی کی اجازت دی گئی۔ بلوچ نے مزاحمت کی اور سرتسلیم خم کرنے سے انکار کردیا۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے تحریک کا نیا ابھارربع صدی پورا کر رہا ہے۔ اس تحریک کے دوران مغربی طاقتیں افغانستان جنگ کی صورت میں پڑوس میں موجود تھیں اور انہیں پاکستان کی اشد ضرورت تھی۔ اس ضرورت کے بدلے میں مغرب نے پاکستان کو معاشی، عسکری اور عسکری ٹیکنالوجی کے میدان میں بے پناہ مدد کی۔ پاکستان نے اس امداد کو بلوچ کے خلاف استعمال کیالیکن اس کے باوجود وہ بلوچ تحریک کی شدت کم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اس سے ثابت ہو چکا ہے کہ بلوچ قومی تحریک ناقابل شکست صورت اختیار کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرکوئی سمجھتا ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات وقتی رسہ کشی ہے تو یہ حالات و واقعات کا غلط تجزیہ ہے کیونکہ بلوچ، پختون، سندھی اور دیگر مقبوضہ اقوام کے تضادات پختہ شکل اختیار کر چکے ہیں اوراب ناقابل حل اور ناقابل مصالحت ہیں۔ ان کے اثرات نے پاکستان کے مقتدرہ اور فوج کو بھی اندر سے تقسیم کر دیا ہے اور فوج کے اندر کی تقسیم، سیاسی رسہ کشی اور مالیاتی بحران کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔ ریاست دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے لیکن پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ طاقت کے زور پر مقبوضہ اقوام کو مغلوب رکھے گی۔ پاکستان کی یہ سوچ تاریخ سے ناواقفیت کا غماز ہے کیونکہ جب قومی تضادات ارتقائی مراحل طے کرکے پختہ صورت میں سامنے آتے ہیں تو انہیں عسکری طاقت سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا ہےکہ خطے کے مظلوم اقوام حقائق کا سامنا کرنے کے لیے واضح حکمت عملی اپنا ئیں اور پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف عصری تقاضوں سے ہم آہنگ پالیسی سازی کرکے اپنے اقوام کی رہنمائی کریں کیونکہ پاکستان جس تیزی سے مختلف بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے، اس سے یہ روز روشن کی طرح واضح ہوتا جا رہا ہے کہ مظلوم و محکوماپنے مقاصد کی حصول کے لیے تاریخ کے درست سمت میں گامزن ہیں۔