بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ، کوئٹہ میں ریلی اور مظاہرہ

218

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں منگل کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب سے ایک ریلی نکالی گئی۔

ریلی میں لاپتہ افراد کی لواحقین، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد کے علاوہ طلباء و طالبات سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگ شریک تھے۔ ریلی کے شرکا نے لاپتہ بلوچ افراد کی تصاویر اٹھا کر ان کی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی شال کی کال پر ہونے والے مظاہرے کے شرکاء نے شہر کے مختلف شاہراہوں سے مارچ کرتے ہوئے شہر کے مصروف ترین جگہ میزان چوک پر مظاہرہ کی شکل اختیار کی۔

احتجاجی ریلی گذشتہ دنوں خضدار سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جاوید بلوچ، مرتضیٰ زہری، عنایت اللہ زہری سمیت نوشکی اور دیگر علاقوں سے جبری گمشدگیوں کے خلاف نکالی گئی-

ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ارسلان بلوچ کا کہنا تھا بلوچستان میں جاری طویل جبری گمشدگیوں کے سلسلے میں ایک بار پھر شدت آگئی ہے لوگوں کو اُٹھاکر لاپتہ کیا جارہا ہے اور جب لواحقین باہر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں تو ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ بیرون ممالک اور ایجنسیوں سے پیسے لیکر احتجاج کررہے ہیں، لواحقین جب عدالت جاتے ہیں تو عدالت میں انھیں کہا جاتا ہے آپ کے لاپتہ افراد تو باہر ملک میں چھپے ہوئے ہیں-

انکا کہنا تھا یہاں عدالتیں بھی ریاست کے بنائے ہوئے ہیں اور اسی کے حق میں فیصلے سناتے ہیں اور دوسری جانب کچھ نام نہاد قوم پرستی کے دعویدار جماعتیں بھی انکی پارلمینٹ میں بیٹھ کر انکے حق میں فیصلے سناتے ہیں اور باہر آکر لاپتہ افراد کے ہمدرد بنتے ہیں-

احتجاج میں شریک بلوچ کونسل فیصل آباد کے غیاث بلوچ نے احتجاج سے گفتگو کرتے ہوئے کہا جاوید بلوچ جنھیں گذشتہ دنوں خضدار سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا وہ بلوچ کونسل فیصل آباد کے چیئرمین رہے ہیں اور انھوں نے ہمیشہ بلوچ نوجوانوں کی تعلیم کی بات کی اور خود خضدار میں فلاحی کاموں میں سرگرم رہے ہیں انکی جبری گمشدگی دراصل تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کے خلاف جاری ریاستی کریک ڈاؤن کا تسلسل ہے-

مظاہرے میں شریک بلوچ وومن فورم کے سلطانہ بلوچ نے اس موقع پر گفتگو کرتے کہا ہم آئے روز ان پریس کلبوں کے سامنے لاپتہ افراد کے ماؤں بہنوں کے ساتھ آکر جمع ہوتے ہوتے ہیں اور لاپتہ پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن نا ہماری آواز سننے کو کوئی ادارہ ہے نا کوئی عدالت ہمیں سنتا ہے اور نا ہی پارلیمنٹ میں بیٹھے عوامی لیڈر ہونے کے دعویدار کبھی ہماری فریاد سنتے ہیں-

سلطانہ بلوچ کا کہنا تھا فورسز کا ہر ادارہ راہ چلتے بلوچ نوجوانوں اور خواتین کو پکڑ کر لے جاتے ہیں اور پھر کوئی الزام لگا کر جیلوں اور قید خانوں میں بند کردیتے ہیں کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں-

بی ایس او کے جلال جورک کا مظاہرین سے گفتگو میں کہنا تھا بلوچستان میں قبضہ مافیہ کی جانب سے مقامی افراد کی جبری گمشدگیوں کے واقعات آج کے نہیں بلکے کل ہمارے باپ دادا سڑکوں پر ان مظالم کے خلاف کھڑے تھے آج ہم یہاں ہیں ویسے تو فوج کروڑوں روپے لگا کر کیڈٹ کالج بناتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ بلوچستان کو تعلیم فراہم کیا جائے گا وہیں دوسری طرف طلباء کو آئے روز لاپتہ کیا جارہا ہے-

آج کوئٹہ میں ہونے والے احتجاج میں متحدہ عرب امارت سے حراست بعد پاکستان میں جبری گمشدگی کا شکار راشد حسین کی والدہ نے شرکت کرتے ہوئے کہا کے انکے بیٹے کو اب پانچ سال مکمل ہونے کو ہے جو دو ریاستوں کی غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک کا شکار ہے میرے بیٹے پر اگر کوئی جرم ہے تو اسے عدالتوں میں لائیں یا ہمیں بتایا جائے کے وہ کہاں اور کس حال میں ہے-

یاد رہے حالیہ دنوں بلوچستان سے جبری گمشدگیوں میں ایک بار پھر شدت میں دیکھنے میں آئی ہے جن میں زیادہ تر لاپتہ ہونے والے طالب علم شامل ہیں-

بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف گذشتہ دنوں طلباء کی جانب سے لاہور، فیصل آباد میں بھی احتجاجی مظاہرہ ہوئے تھے اور اسلام آباد میں بھی احتجاج کی کال دے دی گئی ہے جبکہ جبری گمشدگیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹوئٹر کیمپئن بھی چلائی جارہی ہے-