ایران نے حکومت مخالف احتجاج کے دوران سیکیورٹی فورسز کے خلاف تشدد کے الزام میں گرفتار تین افراد کو سزائے موت دے دی ہے۔
خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق ایران کی عدلیہ نے بتایا ہے کہ جمعے کو تینوں افراد کومہسا امینی کی موت کے خلاف مظاہروں میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف تشدد کے مرتکب ہونے پر سزا دی گئی۔
عدلیہ کی میزان آن لائن نیوز ویب سائٹ کا کہنا تھا کہ ماجد کاظمی، صالح میر ہاشمی اور سعید یغوبی کو اصفہان شہر میں مظاہرے کے دوران بندوق تاننے پر ‘محاربہ’ یا ‘خدا کے خلاف جنگ’ کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اس مظاہرے میں سیکیورٹی فورسز کے تین اہلکار مارے گئے تھے۔
جمعے کو دی گئی پھانسی کے بعد مظاہروں پر ہونے والی سزائے موت کی تعداد سات تک پہنچ گئی ہے۔ ماجد کاظمی، صالح میر ہاشمی اور سعید یغوبی کوگزشتہ برس نومبر میں گرفتار کیا گیا تھا جب کہ انہیں جنوری 2023میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
اس سے قبل امریکہ نے ایران پر زور دیا تھا کہ وہ گزشتہ برس گرفتار کیے جانے والے تین افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان ویدنت پٹیل نے جمعرات کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہاتھا کہ ایرانی شہری ماجد کاظمی، صالح میر ہاشمی اور سعود یغوبی کی سزائے موت پر عمل درآمد کرنا انسانی حقوق کی توہین کے مترادف ہو گا۔
گزشتہ برس مہسا امینی نامی خاتون کی پولیس حراست میں ہلاکت کے خلاف ایران بھر میں مظاہرے ہوئے تھے جن پر قابو پانے کے لیے حکومت نے سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا تھا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بدھ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران کے سرکاری میڈیا پر تینوں افراد کے جرم سے متعلق اعترافی بیانات جاری کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے تینوں کی سزائے موت برقرار رکھی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق بدھ کو تینوں افراد کے اہلِ خانہ کو ملاقات کی اجازت دی گئی اور یہ کہا گیاتھا کہ ان کی یہ آخری ملاقات بھی ہو سکتی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیانا التہاوی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران کے عدالتی نظام میں ششدر کردینےوالےانداز میں تینوں افراد کے خلاف مقدمے چلائے گئے اور انہیں سزا سنائی گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ دورانِ تفیش تینوں پر تشدد ، زبردستی اعترافی بیانات کا حصول، ثبوتوں کی کمی اور منصفانہ طریقہ کار سے انحراف جیسی خامیاں کسی منصفانہ مقدمے کی شرائط کو ڈھٹائی سے نظر انداز کرنے کی ایک اور مثال ہے۔
واضح رہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ایران بھر میں کئی ماہ تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہا تھا جس کے دوران سینکڑوں مظاہرین سمیت سیکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے تھے۔