گذشتہ ماہ 60 افراد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ ماما قدیر بلوچ

102

جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5008 روز جاری رہا۔

اس موقع پر نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری جاں محمد بلیدی، عبدالغفار قمبرانی سمیت دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے آکر لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ عدلیہ اور میڈیا کی جانب سے بناوٹی واویلے کرنے کے باوجود بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل میں کوئی کمی نہیں آئی ہے، گزشتہ ماہ مارچ میں بھی جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شدت دیکھنے کو ملا ہے، گزشتہ ماہ ساٹھ کے قریب لوگوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ متعدد لوگوں کو تشدد کے بعد شہید کیا گیا، جن افراد کو حراست کے بعد رہا کر دیا گیا ہے وہ جسمانی اور ذہنی طور پر مفلوج ہیں اور ایک نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہیں –

انہوں نے کہا کہ ریاست لاشوں کو مسخ کرکے پھینکتے ہیں تاکہ لوگوں میں خوف کا ماحول پیدا کر سکیں اور لوگوں کو جدوجہد سے دور کریں انکے ماؤں کے آواز کو دبا سکیں لیکن بلوچ نے پر امن جدوجہد کا رستہ نہیں چھوڑا ہے اور یہ جدوجہد اپنے حقوق کے حصول تک جاری رہے گا –

ریاستی ادارے فورسز ایف سی، سی ٹی ڈی وغیرہ یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ لوگ بگڑے ہیں بد تہذیب ہیں وہ انکو راہ راست میں لانا چاہتے ہیں جو کالونیل سسٹم کی ایک پیداگردہ ذہنیت ہے، لیکن مقامی لوگ قبضہ گیر کے طریقہ انصاف کو کبھی تسلیم نہیں کرتے یہ عوامی فطرت ہے، ریاست کے معاشی حالات روز بروز بد تر ہوتے جا رہے ہیں لیکن پھر بھی فورسز پہ کروڑوں خرچ کرکے نام نہاد امن و امان قائم کرنے کے نام پہ آبادیوں پہ فوجی آپریشن کرتے ہیں، لوگوں کو جبری اٹھانے میں اخراجات صرف کرتے ہیں اور حاصل نتیجہ میں مزید نفرت بٹورتے ہیں۔