کوئٹہ: گھروں پر مفت کتابیں پہنچانے والے بلوچ نوجوان کی کہانی

384

’سریاب ریڈرز کلب‘ کے رضا کار اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے لوگوں تک کتابیں پہنچاتے ہیں۔

کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے آٹھ سے 10 طلبہ کا ایک گروپ اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے شہر میں مفت کتابیں پہنچاتا ہے ان نوجوانوں نے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر ’سریاب ریڈرز کلب‘ کے نام سے پیجز بنا رکھے ہیں، جہاں تقریباً 600 کتابوں کی تصاویر مختصر تعارف کے ساتھ پوسٹ ہیں۔

کتاب بین ان ٹائٹلز میں سے کسی کو پسند کرنے کے بعد وہ کتاب پہنچانے کا پتہ فراہم کرتے ہیں۔

سریاب ریڈرز کلب کے رضاکار انیس الرحمن نے بتایا کہ وہ اور ان کے دوست ماہانہ 400 سے زیادہ کتابیں خود اپنے پیسوں سے پہنچاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا سب سے پہلے ہمارے پاس جو کتابیں دستیاب ہوتی ہیں انہیں ہم فیس بک اور واٹس ایپ گروپس میں پوسٹ کرتے ہیں، پھر جو بھی کتاب بین پہلے رابطہ کرتا ہے ہم ان سے پتہ لے لیتے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’ڈیلیوری کا پتہ گھر، دکان یا پھر کوئی ہوٹل وغیرہ ہوتا ہے جہاں ہمارے رضاکار کتاب موٹر سائیکل یا سائیکل کے ذریعے پہنچاتے ہیں، پھر ایک مہینے کے اندر کتاب واپس لے کر دوبارہ اس کی پوسٹ سوشل میڈیا پر لگا دیتے ہیں۔

انیس نے مزید بتایا کہ ’ہم اس مد میں کسی قسم کے چارجز نہیں لیتے اور پیٹرول وغیرہ کا خرچہ اپنی جیب سے دیتے ہیں تاکہ کتاب تک رسائی زیادہ سے زیادہ آسان ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔

سریاب ریڈر زون کے پاس اس وقت تقریباً 600 کتابوں میں سے 400 سے زائد تقسیم ہوئی ہیں یہ کتابیں بھی زیادہ تر ان طالب علموں نے اپنی ذاتی لائبریریوں سے وقف کی ہے۔

انیس کہتے ہیں ہمارے پاس اس وقت 400 کے آس پاس ایسے کتاب بین ہیں جو تقریباً ہر مہینے نئی کتاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔
’اچھی بات یہ ہے کہ اب آہستہ آہستہ ہمیں لوگ اپنی کتابیں عطیہ بھی کر رہے ہیں۔

اس کام کی شروعات کے حوالے سے انیس بتاتے ہیں کہ 2020 میں کرونا وبا کے دوران انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ریڈرز کلب بنانے کا ارادہ کیا، جہاں بغیر کسی معاوضے کے کتابیں پڑھی جا سکیں سریاب ریڈرز کلب کوئٹہ شہر کے ایک ایسے علاقے سے شروع کیا گیا جو ماضی قریب میں بدامنی اور پس ماندگی کے لیے جانا جاتا تھا۔ یہ کلب پہلے پہل پورے کوئٹہ اور اب بلوچستان کے دوسرے دور دراز علاقوں تک پھیل چکا ہے حال ہی میں خاران میں خاران ریڈرز کلب کے نام سے یہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔

انیس کی خواہش ہے کہ مستقبل میں وہ بلوچستان کے ہر ضلعے میں ریڈرز کلب شروع کریں تاکہ علم کی یہ روشنی بلوچستان کے ہر گھر تک پہنچ سکے۔