بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5001 ویں روز جاری رہا۔ بلوچستان بار کے جنرل سیکرٹری چنگیز بلوچ اور دیگر وکلا نے لواحقین سے اظہار یکجہتی ۔
اس موقع پر تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ سیاسی کارکنان کی غیر قانونی جبری گمشدگیوں کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 75 برس سے ظلم تشدد اور بربریت کا ایک ایسا سماں برپا کیا گیا ہے، جہاں میٹھے پانی کی جگہ خون کی نہریں بہہ رہی ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ پاکستان کا رویہ بلوچوں کے ساتھ غلام اور آقا کا ہے جیسا کہ کوئی مالک اپنے غلام کے ساتھ بھی نہیں کرتا ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ بلوچ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مختلف اذیت خانوں میں بند اپنے جرم کی لفظی معنی ڈھونڈتے ہوئے خود پر تشدد اور بربریت سہنے پر مجبور ہیں۔
“انہیں یہ علم تک نہیں کہ وہ کس گناہ کی پاداش میں ظلم کی چکی میں پس رہیں ہیں اور اُن کے گھر والے بھوک ہڑتالی کیمپ لگا کر اپنے پیاروں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے اخر تادم مرگ بھوک ہڑتالی کیمپ پر اُتر آتے ہیں کوئی وفد کی صورت میں آکر انہیں جھوٹی تسلی دے کر بھوک ہڑتال ختم کرنے کا مطالبہ کر دیتا ہے کہ چند روز میں ہم اپکے عزیز آقارب کو منظر عام پر لے ائیں گے مگر عملی اقدام ندارد۔”
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جب ظلم تشدد اور حیوانیت حد سے گزر جائے اور لوگوں کو مجبوراً اپنے خلاف اٹھ کڑے ہونے پر مجبور کیا جائے تو قومیں ایک ایسی طاقت بن کر ابھرتی ہیں پھر انہیں روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔