بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5004 ویں روز جاری رہا۔
آج سیاسی کارکنان لعل محمد بلوچ، ظہور احمد بلوچ، داد محمد بلوچ اور دیگر نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ صبح سے شام تک انتظار کرنے کے بعد جب سورج غروب ہوتا ہے تو ہم ایک کرب کے احساس میں ڈوب کر سورج کو دل ہی دل میں مخاطب کرتے ہیں کہ آج تُو رخصت ہوا لیکن کل تو ضرور میرے لیے خوشخبری لے کر طلوع ہوگا اور ایک اداس بے بس اور بے سہارا ماں کو اس کے کلیجے کے ٹکڑے سے ملانے کی خوشخبری سنائے گا لیکن بلوچ مائیں سورج نکلتے ہی اپنے لخت جگر کی راہ میں آنکھیں بجھا دیتی ہیں اور شام تک بھوک ہڑتالی کیمپ میں اسی طرح بیٹھی رہتی ہیں لیکن پھر اچانک یہ ظالم اور بے رحم سورج اپنے غروب ہونے کا اشارہ اس بے بس ماں کو دیتی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ کرب دکھ اور بے بسی کی یہ داستان ان ماؤں کی اپنے جن کے جگر کے ٹکڑے کئی برسوں سے لاپتہ اور مختلف زندانوں میں ظلم تشدد کی چکی میں اپنی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اور اُن میں سے کئی ایک اپنی زندگی کی بازی ہار کر ہمیشہ کے لئے اس دنیا فانی سے رخصت ہوچکے ہیں ۔ لیکن انکے گھر والوں اور ان کی مائیں اس بات کا علم نہیں رکھتی کہ جن کا انتظار وہ صدیوں سے کر رہی ہیں اب وہ نہیں رہے بلوچ مائیں نصف صدی سے اس کرب اور ازیت سے گذر رہی ہیں کہ ان کے لخت جگر تو ان سے بچھڑکر دوبارہ نہیں مل پاتے لیکن موت ضرور ان ماؤں کے پاس دبے پاؤں چلے آتی ہے میں تصور کی آنکھ سے دیکھتا ہوں تو بیٹے کی راہ تکتے تکتے ان کی موت کی خبر کو گلے لگانے والی بلوچ ماؤں کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ یہ عہد ستم و سلسلہ ء دار کہاں تک۔