کراچی یونیورسٹی فدائی حملے کا ایک سال: بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری پر اثرات
ٹی بی پی اداریہ
26 اپریل دو ہزار بائیس کو کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں چینی اساتذہ کو بلوچ لبریشن آرمی مجید بریگیڈ کے فدائی شاری بلوچ نے ایک حملے میں نشانہ بنایا، جس میں تین چینی شہری ہلاک ہوئے اور اس حملے نے بلوچ تحریک کو ایک نئی جہت بخشی، جس میں پہلی بار بلوچ خاتون نے فدائی حملہ کرکے پوری دنیا کو سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کردیا کہ بلوچ اپنے سرزمین کی دفاع میں کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔
کچھ سالوں سے بلوچ مسلح تنظیمیں براہ راست چین کے مفادات اور اُن کے شہریوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی کے مجید برگیڈ کے فدائین نے دالبندن میں سیندک پروجیکٹ سے منسلک چینی انجینئرز، کراچی میں چینی کونسلیٹ، گوادر میں ایسٹ بے روڑ پر چینی انجینئرز کی گاڑی اور کراچی یونیورسٹی میں کنفیوشس انسٹیوٹ میں چینی اساتذہ پر حملے کرچکے ہیں۔ یہ حملے چین کی بلوچستان میں سرمایہ کاری اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ بلوچ مسلح تنظیمں پہلے روایتی گوریلا جنگ کے طرز پر اپنے حملے جاری رکھے ہوئے تھے لیکن مجید برگیڈ کے حملوں نے بلوچ شورش کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔
پاکستان کے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری نے جیو نیوز پر حامد میر کے ساتھ انٹریو میں کراچی یونیورسٹی واقعہ کا ذکر کرکے بلوچ مسلح تنظیموں کے چین کے مفادات پر حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور فدائی حملے کے دن پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر چین کے فوجی قیادت سے ملنے کے لئے چین کے دورے پر ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان اور چین کی قیادت بلوچ مسلح تنظیموں کی حملوں کو روکنے میں ناکامی کے بعد بلوچستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری اور دوسرے پروجیکٹ کے حوالے سے سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔
پاکستان دو دہائیوں سے بلوچ قومی تحریک کو ختم کرنے اور بلوچستان میں معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے کا دعویٰ کررہا ہے جبکہ مسلح تنظیمں اس بات کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ وہ بلوچ قوم کی اجازت کے بغیر بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت نہیں دیں گے اور تسلسل سے ایسے منصوبوں کو حملوں میں نشانہ بنارہے ہیں، جس سے بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور چین کو اپنے منصوبوں کی تکمیل میں سخت مشکلات پیش آر ہے ہیں۔
پاکستان کے دعووں سے قطع نظر بلوچستان کے معروضی حالات بیرونی سرمایہ کاری کے لئے موافق نہیں ہیں۔ بلوچ مسئلہ کو حل کئے بغیر بلوچستان میں شورش جاری رہے گی اور بلوچ مسلح تنظیمیں معاشی منصوبوں پر حملے جاری رکھیں گے۔ بیرونی ممالک اگر بلوچستان میں سرمایہ کاری جاری رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں پاکستان پر بلوچ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے زور دینا ہوگا اور بلوچ قومی تحریک سے وابستہ اداروں و جماعتوں سے براہ راست بات کرنا ہوگا۔