وزیر داخلہ، بلوچ نسل کشی میں سی ٹی ڈی کا معاون ہے۔ بی ایس او / وی بی ایم پی

344

بدھ کے روز بی ایس او پچار کے چیئرمین زبیر بلوچ، وی بی ایم پی کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ اور دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ سال 2022 اکتوبر کے 17 تاریخ کو CTD کی جانب سے خاران میں ایک جعلی مقابلہ دکھا کر 4 افراد کو ماورائے آئین و قانون قتل کردیا گیا اور بعد میں سی ٹی ڈی نے ایک پریس ریلیز کے ذریعے ان چار افراد کی شناخت ظاہر کرکے ایک مسلح تنظیم سے منسلک کردیا ، ان چار افراد میں ایک بی ایس او ( پجار ) وندر زون کے صدر تابش وسیم بلوچ تھے جن کو 9 جون 2021 کو علی ہسپتال خضدار سے ایف سی نے ان کے کزن محمد زکریا کے ہمراہ گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا تھا یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ تابش وسیم اور اس کے کزن محمد زکریا کو اغواء کرنے کے بعد ایف ای کے وردی میں ملبوس افراد نے سی سی ٹی وی فوٹیج اور ڈی وی آر ڈیوائس بھی ہمراہ لے گئے جس کے بعد متعلقہ ہسپتال انتظامیہ نے تابش کے والد محمد شریف کو علاج سے بھی انکار کرکے ہسپتال سے زبردستی ڈسچارج کردیا ۔

انہوں نے کہا کہ تابش کے لاپتہ کرنے کے بعد خاندان کے مشاورت سے تنظیم نے پولیس کو اطلاعی رپورٹ، ڈپٹی کمشنر کو درخواست ، متعلقہ ایم پی ایز اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کو ایپروچ کیا، مختلف اوقات میں احتجاج اور ریلیوں کا بھی انعقاد کیا اور لاپتہ افراد کے کمیشن اور وفاقی وزراء جب گورنر چوک کے دھرنے پہ آئے اور یہ وعدہ کیا کہ اس کے بعد کوئی لاپتہ افراد جعلی مقابلوں میں نہیں مارا جائے گا اور اسی دن لاپتہ افراد کے موجود خاندانوں کی جانب سے 52 افراد کی فہرست ان وزراء کے حوالے کیا گیا جن کے رہائی کی یقین دہانی کرائی گئی اور اس فہرست میں تابش وسیم شہید کا 36 نمبر پہ نام موجود ہے جبکہ ماما قدیر اور چیئرمین نصراللہ خود اس حوالے سے احتجاج اور ریلیوں میں بھرپور شرکت کرتے رہے ہیں ، بی ایس او ( پجار ) نے وزراء و انسانی حقوق کے تنظیموں کو بھی تابش کے رہائی میں کردار ادا کرنے کی اپیل ، درخواست اور منتیں کی جو سارے بے سود ثابت ہوئے ۔

انکا کہنا تھا کہ تابش کے شہادت کے بعد تنظیم کے اہم رہنماؤں کو دھمکی آمیز فون کالز اور ہراساں کرنے کا بھی ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تاکہ بی ایس او کے کارکنان کی حوصلہ شکنی ہو، ہماری کردار کشی کی گئی تاکہ ہم اس کیس کو مزید تحقیقات تک نا لے جائے لیکن تنظیم کے اعلیٰ قیادت نے یہ فیصلہ لے لیا کہ ہم اپنے ساتھی کے ساتھ یہ ریاستی جبر کسی صورت قبول نہیں کرینگے ۔ جس کے بعد ہم نے انسانی حقوق کے تنظیموں کو خطوط لکھیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے قائم کمیشن کے بلوچستان کے دورے پہ مرکزی چیرمین نے خود یہ مدعا کمیشن کے سامنے پیش کیا جس کے حوالے سے رپورٹ اب اہ چکا ہے اور جس میں پولیس کے آئی جی نے تابش وسیم کا CTD کی جانب سے خاران مقابلے میں موجودگی اور دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو ماورائے آئین یا تحویل میں شہادت پہ تشویش کا اظہار کیا ہے ۔

رہنماؤں نے کہا کہ ہم اور آپ یہ جانتے ہے کہ بظاہر سی ٹی ڈی پولیس کا ادارہ ہے اور صوبائی وزیر داخلہ کے ماتحت ہے لیکن صوبائی سطح پر تو ہم نہیں سمجھتے کے کوئی صوبائی وزیر داخلہ ہے یا ایسے کسی عہدے پہ کوئی عوامی نمائندہ ہے حکومتی ارکان اسمبلی اور وزراء ڈنڈے کے سامنے سر بسجود ہے برگیڈیئر خالد فرید کا بنایا ہوا باپ اور اس کے بچے بلوچستان میں باشعور سیاسی کارکنوں کے قاتولں کی معاونت کررہے ہیں۔ تابش کا ماورائے آئین قتل CTD کے تمام کاروائیوں پہ ایک بڑا سوال ہے CTD و حالیہ گرفتاریاں اور آپریشنز ہم سمیت بلوچستان بھر کے عوام کے سامنے مشکوک و غیر آئینی ہے ۔

پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جس تشویش کا اظہار بلوچستان پولیس کے سربراہ نے کمیشن کے سامنے کی ہے اس تشویش کو فوری ایکشن میں بدلا جائے اور ان خونی بھیڑیوں کو پابند سلاسل کیا جائے اور وزیر داخلہ بلوچستان کے لئے BSO کا پیغام ہے کہ بلوچ طلباء آپ کو اس بلوچ نسل کشی میں معاون قرار دیتے ہے اور خاران سمیت تمام جعلی مقابلوں اور گرفتاریوں کے تحقیقات ہونی چاہیے ۔

تابش کے قاتلوں کو قانون کے شکنجے میں لانے کے لئے تمام قانونی اور آئینی فورمز کا دروازہ کھٹکھٹائے گے جو اس کے شہادت سے پہلے کردار ادا نہیں کرسکے اب شاہد اسے و دیگر سینکڑوں افراد کو انصاف دے سکے اور اس حوالے سے مزید تنظیم اس انسانی قتل پہ انسانی حقوقِ کے تنظیموں کو خطوط لکھے گے اور اس مسئلے پر ملک بھر میں ” بلوچستان کے باشعور سیاسی کارکنوں ” کے نام سے پمفلیٹ بھی تقسیم کی جائینگی۔