مقدس بیرک کے رکھوالوں کا تئیسواں کونسل سیشن
تحریر : اقبال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نوجوان کسی بھی معاشرے کیلئے ریڑھ کی ہڈی جتنی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اگر معاشرہ غلام ہو، پھر غلام معاشرے کی بقا کا ضامن نوجوان ہی ہوتے ہیں ہمارے پاس دنیا بھر کے قومی تحریکوں میں نوجوانوں خاص کر طلبا کی جدوجہد اور قربانیاں روزروشن کی طرح دکھائی دیتے ہیں انہی کی قربانیوں اور انقلابی جذبوں سے دنیا کی دوسری غلام قوموں کے نوجوانوں نے انقلابی اسباق حاصل کرکے اپنے تحریکوں کو منظم کیا۔
بلوچ قومی تحریک کو جدید سائنسی سطور پہ لانے میں بھی بلوچ طلبا کا کردار نمایاں ہے دنیا بھر میں جب محکوم اقوام اپنے قومی آزادی کی جدوجہد میں دشمنوں سے برسرپیکار تھے ٹھیک اسی وقت بلوچستان میں بی ایس او کا قیام عمل میں آیا۔ بی ایس او اپنے قیام ہی سے قومی آزادی کے پروگرام لے کر بلوچ نوجوانوں کی فکری تربیت میں جدوجہد کرتا آرہا ہے۔ اس دورانیے میں بی ایس او کو چند مفاد پرست اور فکری حوالے سے دیوالیہ لوگوں نے تقسیم کیا، اس کے قومی مقصد کو سبوتاژ کیا۔ لیکن بی ایس او کے حقیقی کیڈرز نے مقدس بیرک کے مقدس نظریے کو ہمیشہ بلند کیے رکھا۔ آج بھی بی ایس او کی تقسیم پہ کئی ایک باتیں بنائی جاتی ہیں لیکن آج کے شعوری نوجوان کو محض یہ دیکھنا چاہیے کہ کن لوگوں نے بی ایس او تقسیم کیا اور پھر ان لوگوں نے مستقبل میں کس طرح کا سیاست کیا، اور ساتھ میں کن لوگوں نے بی ایس او کے مقدس نظریے کے دفاع میں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ میری اپنی ایک رائے اس سے اتفاق نہ کرنا قارئین کا حق ہے، میں سمجھتا ہوں بی ایس او کبھی تقسیم نہیں ہوا، محض بی ایس او سے مفاد پرست اور نظریاتی طور پر دیوالیہ لوگوں نے اپنی راہیں جدا کیں۔ اور حقیقی کیڈرز بی ایس او سے جڑے رہے۔ جن لوگوں نے بی ایس او کے نام سے دکان داری کی کوشش کی یا کیا جارہا ہے۔ ان کا عمل خود آج بلوچ قوم کے سامنے واضح ہے۔ بی ایس او کل بھی قومی آزادی کا علمبردار تھا آج بھی بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں برسرپیکار ہے۔
جس طرح سمندر اپنے اندر گند کو جگہ نہیں دیتی انہیں ساحل پہ آکر اچھال دیتا ہے ٹھیک اسی طرح قومی انقلابی جدوجہد بھی مفادپرست اور فکری طور پر دیوالیہ لوگوں سے خود کو پاک کرتا ہے بی ایس او تقسیم نہیں ہوا محض بے عمل، مفاد پرست، اور ردانقلابی لوگوں کو اپنے صفوں سے نکال باہر کیا۔ بی ایس او کے حقیقی وارث حمید شہید کی طرح بی ایس او کے نظریات کی دفاع میں اور قومی آزادی کی جدوجہد میں پھانسی کے پھندے کو چومتے ہیں یا فدا شہید کی طرح گولیوں کو اپنے سینے پہ جگہ دیتے ہیں یا پھر زاکر مجید بن کر زندانوں کے نظر ہوتے ہیں مگر بی ایس او کے انقلابی مقصد اور بلوچ قومی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوتے۔
بی ایس او کے نام سے آج کئی ایک دھڑے موجود ہیں مگر آج کے نوجوانوں کو محض نام پہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ بی ایس او مقدس بیرک کو اٹھانا ہرکسی کے بس کی بات نہیں، اس کے نظریات کی دفاع کرنا ، انقلابی مقصد میں جان سے گزر جانا چند ہی سرفروشوں کا کام ہے آج بی ایس او کے حقیقی وارث ، اس کے نظریات کے علمبردار، اس کے قومی جدوجہد کے مقصد سے جڑا تنظیم صرف بی ایس او آزاد ہے۔ باقی صرف گورکھ دھندا ہے، جھنڈا برداری ہے، ووٹ کاری ہے، ٹھیکہ داری ہے، اور کچھ بھی نہیں۔ بلوچ نوجوان گزشتہ بیس سال کے دورانیے کو قریب نظری سے دیکھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بی ایس او آزاد کے علاوہ بی ایس او کا مقدس نام استعمال کرنے والوں نے بلوچ جدوجہد کیلیے کیا کارنامہ انجام دیا۔ یا آج ان دھڑوں سے جڑے چیرمین کہاں کہاں کھڑے ہیں کس کے ساتھ کھڑے ہیں اور کن نظریات کیلیے کھڑے ہیں یہیں سے فرق واضح ہوجاتی ہے۔
بی ایس او آزاد بلوچ قومی جدوجہد کو ایک ایسے موڑ پہ توانائی فراہم کرتی ہے جب بلوچ قوم ایک نئے جدوجہد کیلیے تیاری میں مصروف عمل تھا۔ یہ اعزاز بی ایس او آزاد کو جاتا ہے کہ اس کے انقلابی کیڈرز نے کسی بھی بلوچ سیاسی جماعت سے قبل بلوچ قومی آزادی کو اپنے منشور کا حصہ بنایا جس کی خاطر بی ایسا او کا قیام ہوا تھا بی ایس او کو مفاد پرست، پارلیمنٹ پرست اور نظریاتی دیوالیہ لوگوں کے ہاتھوں سے چھین کر نوجوانوں کو بی ایس او کے حقیقی مقصد سے آگاہ کیا۔ اور یہ سفر ہنوز جاری ہے۔ گزشتہ بیس سالوں کا دورانیہ بی ایس او آزاد اور بلوچ قوم کیلئے صبرآزما رہے ہیں قومی مقصد کے حصول میں بقول جنرل گیاپ کے “ انسانی سروں کا اندازہ نہیں لگایا جاتا” مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دوران میں ہم نے اپنے ایسے رہنماؤں کا نذرانہ دیا جن کا نعم البدل ناممکن ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے قومی انقلابی جدوجہد بغیر قربانیوں کے ممکن نہیں۔ بی ایس او آزاد کے رہنماؤں سمیت اس کے کیڈرز نے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کرکے قومی جدوجہد کا علم اٹھائے رکھا۔ بقول بھگت سنگھ “ ہم انقلاب کی علامت ہیں ہمارے پھانسی سے اس کو تقویت ملےگی، لیکن اگر ہم اپنے قربانی سے پیچھے ہٹیں گے تو انقلاب داغدار ہوگی”
بی ایس او آزاد کے رہنماؤں سمیت کیڈرز نے سخت ترین ریاستی کریک ڈاؤن میں انقلابی عمل کو داغدار ہونے سے بچایا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دس سال سے ریاستی پابندی، جبر اور مشکلات کے باوجود بی ایس او آزاد کا سفر جاری ہے۔ جو نہ صرف اپنے قومی جہدوجہد کو جاری رکھے ہوئے بلکہ بلوچ طلبا کو انقلابی لٹریچر فراہم کررہے ہیں حالیہ چند عرصوں میں بی ایس او آزاد کی جانب سے آزاد میگزین کا اجرا، سگار میگزین کی دوبارہ اشاعت سمیت دنیا بھر کے انقلابی تحریکوں اور انقلابی جہدکاروں کے تحریر شدہ مواد کو بلوچی و براہوی میں شائع کرنا خوش آئند ہے۔
یہ سن کر خوشی ہوئی کہ بی ایس او آزاد تئیسواں قومی کونسل سیشن کی جانب بڑھ رہی ہے۔ سخت ترین حالات میں ایسے قومی پروگرام کا انعقاد کرنا انقلابی جذبے سے لیس سیاسی کارکنوں کی ہی بدولت ممکن ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ بی ایس او آزاد اپنے کونسل سیشن میں قومی جذبے سے سرشار نئی قیادت بلوچ طلبا کو فراہم کرے گی بلوچ طلبا کو چاہئے کہ وہ بی ایس او آزاد جیسی قوم دوست طلبا تنظیم کے ساتھ خود کو منسلک کریں اور قومی تحریک میں اپنی توانائیاں خرچ کریں تاکہ اس خواب کو حقیقت میں بدل سکیں جس کیلیے ہزراوں شہدا نے اپنا خون بہایا یا ہزاروں کی تعداد میں پس زندان ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں