قید خانے کی خبری
تحریر: دروشم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
روز کی طرح میں اپنی جگہ بیٹھی اُس کے کھانا ختم کرنے کی انتظار کر رہی تھی، وہ آخر میں ایک لقمہ میرے لیے ضرور بچا کے رکھتا کیونکہ اسکا بچا ہوا ایک لقمہ میری ننھی سی پیٹ کو بھر دینے کے لیے کافی تھی، آج اس نے کھانا جلدی کھا لیا اور پلیٹ میری طرف کی کہ میں اپنے حصے کا کھانا کھا لوں تو اسکی پلیٹ میں بہت زیادہ کھانا بچا ہوا تھا اس نے پورے پلیٹ سے صرف دو لقمے کھائے تھے میں سمجھ گئی وہ آج پھر اداس ہے۔ وہ جب بھی کھانا نہیں کھاتا تو میں سمجھ جاتی ہوں کہ آج میرا دوست اداس ہے کیونکہ ہماری دوستی سات سال کی تھی اب تو میں اسکی عادت اور مزاج سے بھی واقف ہوگئی تھی۔اسکو یوں اداس دیکھ کر میں بھی اسکے لیے اداس ہوگئی اور روشن دان سے ہو کر اسکے کمرے میں داخل ہوگئی تاکہ اسکا حال پوچھ لوں کمرہ مکمل اندھیرا تھا جس میں روشنی کا واحد زریعہ ایک چھوٹی سی روشن دان تھی چار بائی چار کا یہ کمرہ بہت چھوٹا تھا اگر وہ اپنے پاؤں پھیلاتا تو دوسرے طرف دیوار میں لگ جاتے ،کمرے کی لمبائی بھی اتنی تھی کہ اگر وہ کھڑا ہو جائے تو اسکا سر چھت سے لگ جائے۔ کمرے کے ایک طرف اسکا مٹکا رکھا ہوا تھا جس میں پانی دو دو ہفتے بعد ڈالا جاتا تھا مٹکے کے قریب ہی اسکے جوتے رکھے ہوئے تھے جو تقریب سات سالوں سے اپنے مخصوص جگہ سے ہلے تک نہیں نا ہی کسی پاؤں کے وزن کو محسوس کیا ہوگا۔ وہ اس قبر نما کمرے کے ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھا ہوا تھا۔
جب میں کمرے میں داخل ہوئی تو اسکے چہرے پے ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی کیونکہ میرے سوا یہاں اسکا کوئی دوست نہیں تھا نا اسکو کوئی سننے والا تھا حالانکہ وہ میری زبان کو سمجھتا نہیں تھا اور میں بھی اس سے اپنی جزبات بیان کرنے سے قاصر تھی میں بس اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے ایک ہی دھن میں بولتی رہتی وہ کچھ نا سمجھ کر بھی مجھے پیار سے سہلاتا رہتا تھا وہ اپنی زبان میں پیار سے مجھے حوالی یعنی ( خبری )کہتا تھا کیونکہ اسکو لگتا تھا میں اسکے حال حوال ا سکے گھر والوں کو دیتی ہوں وہ تو سالوں سے اس قید میں بند ہے لیکن میں آزاد تھی اس لیے وہ اپنی دل کی ہر بات مجھے کہتا تھا تاکہ میں اڑ کر جاؤں اور اسکے گھر والوں کو اسکا حوال دوں۔
وہ جانتا تھا کہ میں اسکے گھر والوں کو اسکی خبر نہیں دے سکتی لیکن پھر بھی وہ اپنے دل کو تسلی دینے کے لیے مجھے روز کہتا حوالی جا میرا حوال میرے گھر والوں کو دے آ۔ اس نے سات سالوں سے اپنے گھر والوں کو نہیں دیکھا وہ کس حال میں ہیں زندہ بھی ہیں یا نہیں وہ ہر چیز سے لا علم تھا لیکن وہ اس آس میں جی رہا تھا کہ ایک دن وہ ضرور اس قید سے رہا ہوگا اور اپنی بیوی ،بچوں کو اپنی والدین اور اپنی بہن بھائیوں کو دیکھ سکے گا۔
لیکن نہ جانے وہ کس جرم کی سزا کاٹ رہا تھا یہاں؟ کیوں یہ لوگ اسکو یوں بے پناہ تکلیفیں دے رہے تھے؟ کیا یہ ان کے جیسا نہیں ہے ؟اگر ہیں تو وہ کیوں ایسے ظالم ہیں جو اس کو روز الٹا لٹکا کر مارتے و پٹتے ہیں اسکے زخموں پر نمک اور مرچ لگاتے ، کئی ہفتے اسکو سونے بھی نہیں دیتے ۔ کیا یہ لوگ جن پے ظلم کیا جاتا ہیں یہ لوگ کسی اور دنیا سے آئے ہیں ؟ جو ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے بلکہ اس پورے قید خانے میں موجود لوگوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے جب یہاں موجود لوگوں کو تکلیف و ازیتیں دی جاتی ہیں تو ان کے چیخ و پکار سے دل لرز جاتی ہے بلکہ عرش بھی ان کی آہ سے لرز جاتی ہوگی ۔لیکن یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے ہی جیسوں کے تکلیفوں کی وجہ بن رہے ہیں ۔
یہ بڑھی سی چار دیواری جس کے کونے پر ایک چھوٹا سا درخت ہے جو میرا آشیانہ ہے اور اسی چاردیواری کی بیچوں بیچ ایک بہت بڑا کوٹھی ہے جس کے اندر ایسے قبر نما کئی کمرے بنے ہوئے ہیں جن کے اندر سالوں سے انسان بند ہیں اور انکو مختلف قسم کی اذیتیں دی جاتی ہیں پر یہ لوگ کون ہیں ؟ جو سالوں سے یہاں بند ہیں جو اتنے تکلیف کے باوجود مسکراتے ہیں مہر محبت کرتے ہیں ایک دوسرے کے تکلیف کو محسوس کرتے ہیں۔ اور میں بھی ان کے ساتھ انکی تکلیف کو جیتی ہوں انکے درد پر میرے بھی آنسو نکلتے ہے انکے مسکراہٹوں کے ساتھ میں بھی مسکراتی ہوں میں انکو چھوڑ کر نہیں جا سکتی کیونکہ یہی میرا آشیانہ ہے شاید وہ بھی اپنی آشیانے کے لیے اس تکلیف کو برداشت کر رہے ہونگے شاید وہ زمین سے مہر و محبت کرنے والے (زمین ذادگ) ہیں۔
پر آج میرا دوست اداس تھا کیونکہ آج پھر کوئی اور اس قید خانے کے زینت بنی تھی جب میں اس کے قریب بیٹھی تو اس کے آنکھوں میں آنسوںتھے یہ پہلی بار تھا جو وہ کسی کے اس قید خانے میں آنے سے رو رہا تھا مجھے دیکھ کر اسکے آنکھوں سے آنسوبہنے لگے اور وہ بھری ہوئی آواز میں کہنے لگا دیکھ حوالی آج پھر کوئی بخت کا مارا اس قید خانے کی زینت بنی ہے۔ پر آج یہ چیخ یہ فریاد کچھ الگ ہیں جس سے مجھے بے چینی ہو رہا ہے کون ہیں یہ؟ اس کی فریاد کیوں دل کو تکلیف دے رہا ہے۔ جا حوالی دیکھ کر آ ،آج یہ درد یہ تکلیف الگ کیوں ہیں؟ اس کی چیخ و پکار دل کو کیوں چیر رہی ہیں جا حوالی جلدی دیکھ کر آ۔مجھے اپنے ہاتھوں پے اٹھا کر روشن دان کے قریب لاتے ہوئے ایک بار پھر مجھے جانے کو کہا ۔
میں روشن دان سے نکلی اور اس کوٹھی کے چاروں طرف گھومنے لگی تاکہ جان سکوں کہ یہ چیخ اور فریاد کہاں سے آرہی ہے۔ دو بار کوٹھی کی چکر لگانے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ جس کمرے سے میں نکل کر آئی تھی اسکے دو کمرے بعد ہی تیسرے کمرے سے یہ آواز آرہی ہے میں اپنی فطرت کے مطابق روشن دان پے جا بیٹھی اور اندر جھانکنے لگی تاکہ دیکھ سکوں کون ہے یہ بخت کا مارا؟ وہی چار بائی چار کا کمرہ ، پاؤں سیدھا کریں دیوار کو لگ جائے اور سر اٹھائے تو سر چھت کو لگ جائے ،اور اندھیرا ایسا کہ خوف کے مارے دل منہ کو آجائے۔
جب میں کمرے کے اندر داخل ہوئی تو وہ کمرے کے ایک کونے میں بے حس پڑی ہوئی تھی، اسکے چہرے پر اسکے لمبے بال بکھرے ہوئے تھے اسکو دیکھ کر مجھے لگا یہ الگ تھا میرے دوست جیسا نہیں ہے، اسکے کپڑے الگ تھے اسکے کپڑوں پر نقش نگار بنے ہوئے تھے وہ اپنی جسم کے حساب سے بہت نازک تھی ایک پل کو میں خوف کے مارے پیچھے ہوگی۔ کیونکہ میں نے اس جیسا پہلے یہاں نہیں دیکھا ہے لیکن جب وہ درد کے مارے کراہنے لگی تو مجھے احساس ہوا کہ نہیں یہ اُسی کی طرح ہیں کیونکہ وہ بھی درد میں ایسے ہی آوازیں لگاتا ہے، یہ بس اپنی کپڑے اور شکل و صورت کے حساب سے الگ ہیں۔
کافی دیر تک میں اسکے سامنے یوں ہی بیٹھی رہی کیونکہ وہ شدید تشدد کی وجہ سے بے ہوش تھی کچھ دیر بعد جب اسکو ہوش آیا، اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور مجھے یوں اپنے سامنے دیکھ کر وہ ایک پل کو چونک گیئ کہ اس قید خانے میں کہاں سے آئی میں، لیکن وہ کچھ دیر بعد سنبھل گیئ اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن زخموں کے وجہ سے وہ اٹھ نہیں پا رہی تھی اُس پر اس قدر تشدد ہوا تھا کہ بار بار کوشش کے باوجود وہ بیٹھ نہیں سکی بس یوں ہی اپنی جگہ بے حس پڑی رہی اور اپنے چہرے سے بال ہٹا کر مجھے دیکھنے لگی اور اسکے آنکھوں سے آنسوں جاری ہوئے ۔اس نے آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ میری طرف کیا اسے لگا کہ میں اس سے ڈر جاؤں گی پر وہ انجان تھی کہ ان سے مجھے ڈر نہیں لگتا اب مجھے انکی درد بانٹنے کے عادت ہوگی ہے ۔اس نے جب یہ دیکھا میں ڈر نہیں رہی تو اس نے مجھے مخاطب کر کے پوچھا حوالی تم یہاں کیسے؟ میں چونک گئی اسکو میرا نام کیسے پتہ؟ ہاں یہ دونوں ایک جیسے ہیں یہ بھی مجھے اسی نام سے بلاتی ہے جس نام سے مجھے میرا دوست بلاتا ہے تب مجھے احساس ہوا کہ یہ دونوں ایک جگہ کے رہنے والے ہیں ایک ہی زبان بولتے ہیں مطلب یہ بھی زمین ذادی ہے یہ بھی وطن کی مہر کے جرم میں یہاں پہنچی ہے ۔
میں یہ دیکھ کر واپس جانے لگی کہ جا کر دوست کو بتا دوں کہ اس بار تجھ جیسا نہیں بلکہ کوئی اور آئی ہے جو تجھ سے الگ اور بہت نازک ہے بہت خوبصورت ہے تجھ جیسا ہمت والا ہے تیرا ہی زبان بولتا ہے ۔ میں جیسے ہی اپنے پر پھیلا کے اڑنے لگی کہ اس نے آواز دی ۔رک حوالی کہاں جا رہا ہے؟کیا تو میرے گھر والوں کو بتائے گا کہ میں کہاں ہوں؟ اور کس حال میں ہوں ؟ دیکھ میں اس قید سے تو نہیں جاسکتی پر تو جاسکتی ہے تو انکو بتا انکے بیٹی اس ظالم کی قید میں ہیں جہاں ہر طرح کی اذیت سہہ رہی ہیں تو جا کے میری بچوں کو میرا پیغام دے سکتا ہے کہ انکی ماں انکو بہت یاد کرتی ہے انکو بتا میں اب تک نہیں ٹوٹی ہوں تو اس کی وجہ تم لوگ ہو میرے بچے میں تم لوگوں کے بنا نہیں رہ سکتی میں جانتی ہوں کہ میں نے تم دونوں کو اس ظالم دنیا کر حوالے کر دیا جہاں انسان نہیں وحشی جانور رہتے ہیں جو ظالم کے پشت پناہ میں رہ کر مظلوم کی بوٹیاں نوچتے ہیں ۔اور یہ وہی ظالم دنیا ہے جہنوں نے تم دونوں سے تمہارا باپ چھینا تھا اور وہی مجھے بھی تم دونوں سے دور کر کے ماں کا سایہ بھی تم لوگوں سے چھین لیا۔ میری بچوں اس ریاست سے کھبی امید مت لگانا کہ یہ تمہیں انصاف نہیں دے سکتا جو اس ظلم کی دنیا کو چلاتے ہو وہ کھبی کسی کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے۔ ان سے امید کمزوری کے سوا کچھ نہیں۔ شاید میں اس قید میں سالوں سال کے لیے قید رہوں یا کبھی بازیاب نا ہو سکوں ، یا ایک دن تمہیں یہ سنے کو ملے کہ تمہاری ماں کی تشد زدہ لاش کسی ویرانے یا کسی کنویں سے ملی ہے لیکن تب بھی تم نا امید نہیں ہونا بلکہ اپنی بابا کے راہ پر چلنا اور وطن سے محبت و وفا کرنا کھبی دشمن کا ساتھ مت دینا۔
میرے بچیوں میں تم لوگوں کی زندگی سنوار نہ سکی نا تم دونوں کے ارمانوں کو پورا کر سکی تمہارے عمر میں بچے اپنے والدین کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارتے ہیں پر تم دونوں کی زندگیاں ایک غم سے نکلتی نہیں کہ دوسری میں لیپٹ جاتی ہیں ۔اف میرے بچیاں۔۔۔۔ میری نغرا میری نازینک
یہ کہتے ہی وہ زار قطار رونے لگی کافی دیر رونے کے بعد وہ خاموش ہو گئی اور ہاتھوں سے اپنی آنسوپونچھتی ہوئی میری طرف دیکھنے لگی اور مسکراتے ہوئے کہا ارے حوالی تم ابھی تک یہی ہو جاؤ نا میرے قید خانے کی خبری میری خبر میرے بچوں کو دے آو وہ میرا انتظار کر رہے ہیں وہ اپنے ننھے سے ہاتھوں میں میری تصویر لیے گلیوں اور سڑکوں پے مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے ان سے کہو تمہاری ماں تمہیں وطن زادوں کی قطار میں ملے گی، تمہاری ماں تمہیں اپنے لاپتہ بھائیوں کے ہمراہ کسی قید خانے میں ملے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں