نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچ سماج میں خواتین کامقدس درجہ تاریخ سے ثابت ہوتی ہے کہ خواتین کے ساتھ بد سلوکی کے رویوں نے جہاں رند و لاشار جیسے عظیم قبائل ہے مابین تیس سالہ خانہ جنگی پیدا کیا وہیں دوسری طرف سینکڑوں کے تعداد میں خون بہہ جانے کے باوجود بلوچ خواتین کے مداخلت پر امن قائم ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر شازیہ خالد کے عزت کی عصمت دری ہو جانے پر شہید نواب اکبر خان بگٹی اس سندھی خاتون کے تقدس کے لئے اس وقت کے مطلق العنان حکمران سے ٹکرا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہید گلناز بلوچ و شہید کریمہ بلوچ کی قربانیاں بلوچ قوم کے لئے مشعل راہ ہیں۔ بلوچ قومی اقدار کو حکمراان پاوں تلے روند کر بلوچ مزاحمت کو مستند دلیل فراہم کر رہے ہیں کہ انکو صرف بلوچستان کے وسائل سے سروکار ہے، یہاں بسنے والے بلوچوں سے کوئی سروکار نہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ماہل بلوچ کا معاملہ اس وقت عدالت میں زیر التوا ہے جہاں اس امید کے ساتھ مقدموں کے کاروائیوں پر معاونت فراہم کیا جا رہا ہے تا کہ انصاف کے فراہمی کے مکمل تقاضوں کو پورا کیا جاسکے۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے ماہل بلوچ کی اہل خانہ و بچوں سمیت جبری گرفتاری کے بعد باقیوں کو رہا کر کے ماہل کو کئی دنوں تک پابند سلاسل رکھا گیا، پھر ڈرامائی طور پر گرفتاری ظاہر کر کے ریمانڈ پر ریمانڈ کے بعد ماہل بلوچ کو عدالت کے فیصلے سے قبل بار بار الیکٹرانک میڈیا کے سامنے لایا جا رہا یے تا کہ میڈیا ٹرائل کے ذریعے اسے مجرم قرار دے کر معاشرے میں نہ صرف ماہل بلوچ بلکہ بلوچ خواتین کے تقدس کو کمزور کیا جاسکے۔
گذشتہ دنوں وزیر اعلیٰ بلوچستان کے بیان میں واضح تھا کہ مظاہروں سے نمٹنے کے لئے وومن اینٹی رائٹ ونگ کا قیام لایا جائےگا جس سے حکمرانوں کی نیت واضح ہو چکا ہے کہ اب انہوں نے بلوچ خواتین کو اپنا نشانہ ہدف بنایا ہوا ہے اور ماہل بلوچ کا واقعہ اس سازش کی کڑی ہے۔ سرکار پر یہ واضح ہو جانا چاہئےکہ وہ بلوچ قومی اقدار کو مسخ کرنے کے لئے سرخ لکھیر کو عبور نہ کرے کیوںکہ بلوچ سماج کا موازنہ پنجابی بالادست سماج سے نہیں ہو سکتا جہاں پر سولہ سالہ لڑکی مختاراں بی بی کو پنچائیت کے فیصلے پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لہذا ماہل بلوچ سمیت کسی بھی شہری کا میڈیا ٹرائل عدالتی فیصلے سےقبل نہایت غیر سنجیدہ، شرمناک، غیر اخلاقی و قابل مذمت عمل ہے۔