خیبرپختونخوا کے علاقے اپر کوہستان کےمختلف علاقوں میں احتجاج کے بعد داسو ڈیم کی تعمیر پر کام کرنے والے چینی باشندے کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
ہزارہ ڈویژن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کے ترجمان کے مطابق چینی باشندے کو حراست میں لے کر مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں جب کہ حالات اب قابو میں ہیں اور مظاہرین منتشر ہوچکےہیں۔
گلگت بلتستان کے صحافی فہیم اختر نےوائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہفتے کی شب چینی باشندے کی اپنے ماتحت مزدور کو مبینہ طور پر نمازِ تراویح کی ادائیگی سے روکنے یا زیادہ دیر لگانے پر تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد متعلقہ مزدور نے چینی باشندے پر توہینِ مذہب کے مرتکب ہونے کا الزام لگایا۔
بعدازاں واقعے کے خلاف اپرکوہستان کے مختلف علاقوں میں احتجاج شروع ہوگیا اور اتوار کو ہزاروں افراد نے شاہراہ قراقرم کو ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا جب کہ مظاہرین نے برسین میں چینی باشندوں کے کیمپ پر حملہ آور ہونے کی بھی کوشش کی جسے پولیس نے ناکام بنا دیا۔
گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلیٰ کے ترجمان فیض اللہ فراق اور صحافی فہیم اختر کا کہنا تھا کہ مظاہرین کا احتجاجی دھرنا رات گئے تک جاری رہا ۔ بعد ازاں پولیس نے چینی باشندے کو حراست میں لینے کے بعد مقامی علما اور عوامی نمائندوں کے سامنے پیش کیا جس کے بعد مظاہرین نے دھرنا ختم کر دیا ۔
فہیم اختر کے مطابق ہفتے کو ہونے والی شدید بارشوں کے باعث شاہراہ قراقرم پر لینڈ سلائڈنگ سے مختلف مقامات پر آمد و رفت کا سلسلہ معطل رہا تھا اور اتوار کو ہونے والے احتجاج نے متاثرہ افراد اور ٹرانسپورٹرز کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں توہینِ مذہب کے الزامات لگائے جانے کا سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ صوبہ پنجاب میں گزشتہ ہفتے ایک خاتون کو ان کے بیٹے سمیت مقدمہ درج ہونے کے بعد توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان میں کسی غیر ملکی کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہو۔
اپر کوہستان کے مختلف علاقوں اور گلگت بلتستان کے دیامیر بھاشا میں کئی چینی باشندے پانی جمع کرنے اور بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی تعمیر پر کام کر رہے ہیں۔
چودہ جولائی 2021 کو اسی علاقے میں دہشت گردوں کے مبینہ حملے میں نو چینی انجینئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد داسو ڈیم کی تعمیر کا سلسلہ کئی مہینوں تک معطل رہا تھا۔
علاوہ ازیں سن 2020 میں کرونا سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان اور چین کے درمیان شاہراہ قراقرم کے راستے دو طرفہ زمینی تجارت کا سلسلہ بھی لگ بھگ تین برسوں کے بعد چند روز پہلے ہی بحال ہوا ہے۔