اقوام متحدہ کے مطابق وہ اس پابندی کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے اور مزید وضاحت کے لیے بدھ کو کابل میں افغان وزارت خارجہ کے حکام سے ملاقات کر رہا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کا مشن بدھ کو کابل میں طالبان حکام کے ساتھ مذاکرات کرے گا تاکہ نئی حکومتی پابندی کے بارے میں ’وضاحت حاصل کی جا سکے‘ جس کے مطابق خواتین عملے کو ملک بھر میں عالمی ادارے کے لیے کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان کی جانب سے اقوام متحدہ میں کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی کے نفاذ کے حکم کے بعد عالمی ادارے نے افغانستان میں موجود اپنے تقریباً ساڑھے تین ہزار افراد کے عملے کو اگلے دو دنوں تک کام پر نہ آنے کی ہدایت کی ہے۔
قوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجرک نے نیویارک میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے دفتر کو ’طالبان حکام کی جانب سے ایک حکم نامہ موصول ہوا ہے جس میں عالمی ادارے کے عملے میں شامل خواتین کے کام کرنے پر پابندی کے بارے میں بات کی گئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اس حکم نامے کے اثرات کا جائزہ لے رہا ہے اور مزید وضاحت کے لیے بدھ کو کابل میں افغان وزارت خارجہ کے حکام سے ملاقات کر رہا ہے۔
ملک میں تقریباً 400 افغان خواتین اقوام متحدہ کے لیے کام کر رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے دو ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ طالبان کے حکم نامے کے نفاذ کے حوالے سے خدشات کے باعث تنظیم نے اپنے تمام عملے بشول مرد اہلکاروں کو 48 گھنٹے تک کام پر نہ آنے کی ہدایت دی ہے۔
جمعے اور ہفتے کو عام طور پر افغانستان میں چھٹی کے دن ہوتے ہیں جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کا عملہ اب اتوار تک واپس کام پر نہیں آئے گا۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن (یو این اے ایم اے) نے ایک روز قبل مشرقی صوبے ننگرہار میں خواتین عملے کو کام پر جانے سے روکنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
سٹیفن نے مزید بتایا کہ ’ننگرہار کے صوبائی دارالحکومت جلال آباد میں دونوں حکام کے درمیان بات چیت ہوئی ہے تاہم ہمیں مختلف ذرائع سے بتایا گیا کہ اس پابندی کا اطلاق پورے ملک پر ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ زندگی بچانے والی امداد پہنچانے کے لیے اقوام متحدہ کے لیے عملے میں خواتین ارکان کی شمولیت ضروری ہے۔