’جیتے جی بیٹا لاپتہ ہو جائے تو عید کیسی‘

372

’میرے بیٹے نے راستے میں مجھے بتایا کہ اُس نے روزہ رکھا ہوا ہے، اُس لیے اس کی افطاری کا اچھا سا بندوبست کیا جائے۔ بیٹے کی خواہش پر ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق اچھے پکوان تو تیار کروائے لیکن وہ انھیں کھانے کے لیے کبھی گھر نہیں پہنچ سکا۔‘

یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع قلات سے تعلق رکھنے والے محمد اسحاق لاشاری کا جن کے بیٹے فیاض لاشاری کو مبینہ طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد اسحاق اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے اور گلوگیر آواز میں بتایا کہ امتحان دینے کے بعد اُن کا بیٹا اسلام آباد سے عید منانے کے لیے گھر آ رہا تھا۔

’ایسے میں ہم عید کیسے منائیں جب میرا لخت جگر لاپتہ ہے۔ اور یہ بھی علم نہیں کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟‘

فیاض لاشاری کون ہیں؟

فیاض لاشاری کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلات سے ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم قلات سے حاصل کی اور اس کے بعد یونیورسٹی آف بلوچستان سے فزیوتھراپی کی ڈگری لی۔

وہ اس وقت اسلام آباد میں ہیلتھ سروسز اکیڈمی سے پبلک ہیلتھ سروسز میں ماسٹرز کر رہے ہیں۔ ان کے والد کے مطابق سات بھائیوں میں ان کا نمبر چھٹا ہے۔

ان کے والد نے بتایا کہ فیاض شادی شدہ ہیں اور ان کی شادی تقریباً ایک سال قبل ہوئی تھی۔

فیاض لاشاری کے والد محمد اسحاق خود بھی پولیس کے ریٹائرڈ ملازم ہیں اور انھیں ریٹائرمنٹ کے وقت جو پیسے ملے وہ انھوں نے فیاض اور دوسرے بچوں کی تعلیم پر خرچ کر دیے۔

ان کا کہنا تھا کہ تاحال فیاض ملازمت نہیں کر رہے ہیں اور اسلام آباد میں ان کی تعلیم کے اخراجات بھی وہ ہی برداشت کرتے ہیں۔

محمد اسحاق نے بیٹے کی مبینہ گمشدگی کے بارے میں کیا بتایا؟

محمد اسحاق کے مطابق اسلام آباد میں موجود اپنے بیٹے کے ساتھ جب ان کا آخری رابطہ ہوا تو انھوں نے بتایا کہ 14 اپریل کو ان کے دوسرے سمسٹر کا آخری پرچہ ہے جسے دینے کے بعد وہ کوئتہ کے لیے روانہ ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ 15 اپریل کو علی الصبح کرائے کی کار میں دو ساتھیوں کے ساتھ صبح ساڑھے پانچ بجے کے قریب کوئٹہ کے لیے اسلام آباد سے روانہ ہوئے۔

’ان کے ساتھ سفر کرنے والوں میں ان کے کلاس فیلو محمد فراز کے علاوہ ڈاکٹر نبی داد بگٹی اور گاڑی کے ڈرائیور شامل تھے۔‘

محمد اسحاق نے بتایا کہ فیاض لاشاری کے ساتھ سفر کرنے والوں نے بتایا کہ جب اُن کی گاڑی شام کو ساڑھے چار سے پانچ بجے کے درمیان ضلع پشین کے علاقے زیارت کراس پر پہنچی تو تین گاڑیاں تیزی کے ساتھ آ کر ان کی گاڑی کے سامنے رُکیں۔

’ان گاڑیوں میں سے تقریباً 15 افراد اترے جن میں سے بعض مسلح تھے۔ اور ان میں سے چند افراد وردی میں ملبوس تھے اور بعض سادہ کپڑوں میں۔‘

محمد اسحاق نے دعویٰ کیا کہ ’نامعلوم افراد نے گاڑی کے قریب آ کر سب سے شناختی کارڈ طلب کیے اور شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد انھوں نے کار ڈرائیور اور سرفراز احمد کو چھوڑ دیا جبکہ میرے بیٹے فیاض اور ڈاکٹر نبی داد بگٹی کار سے اتار کر اپنی گاڑیوں میں نامعلوم مقام پر لے گئے۔

محمد اسحاق کا کہنا ہے کہ 16 اپریل کو نبی داد بگٹی کو کوئٹہ کے علاقے بروری روڈ پر صبح چھ بجے چھوڑ دیا گیا لیکن ان کا بیٹا تاحال لاپتہ ہے۔

محمد اسحاق کے مطابق انھوں نے متعلقہ تھانے کے حکام کو ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دی ہے۔

یاد رہے کہ زیارت کراس کا علاقہ ضلع پشین کی تحصیل کاریزات میں آتا ہے۔

کاریزات میں انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس سلسلے میں ایک درخواست آئی ہے تاہم ابھی تک انھوں نے ایف آئی آر درج نہیں کی ہے کیونکہ ابھی تک اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ یہ واقعہ ان کے علاقے میں پیش آیا یا کسی اور علاقے میں۔

حکام کا کیا کہنا ہے؟

فیاض لاشاری کی مبینہ جبری گمشدگی پر بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے بات نہیں ہو سکی۔

تاہم جب اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر پشین یاسرخان بازئی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی واقعہ ان کے علم میں نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس علاقے میں اس واقعے کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے وہاں سے بھی ہمیں کوئی شواہد نہیں ملے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ بدھ کی شام جب انھوں نے تحصیل کاریزات کے اسسٹنٹ کمشنر سے اس سلسلے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ انھیں کسی نے واٹس ایپ پر ایف آئی آر کے اندراج کے لیے درخواست بھیجی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ درخواست اگرچہ محمد اسحاق نامی شخص کی جانب سے ہے لیکن اس پر ان کے دستخط نہیں ہیں۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ جب کوئی اس سلسلے میں شواہد کے ساتھ باقاعدہ درخواست دے گا تو وہ قانون کے مطابق اس کا جائزہ لیں گے۔

’فون بند ہونے پر تشویش ہوئی‘

محمد اسحاق نے بتایا کہ آخری مرتبہ ان کا فیاض سے رابطہ خانوزئی کے علاقے میں ہوا جو کہ زیارت کراس سے پہلے آتا ہے۔

ان کے مطابق ’ہم بیٹے کے آنے پر خوش تھے لیکن اس کے وقت پر گھر نہ پہنچنے پر تشویش لاحق ہوئی اور جب فون کیا تو اس کا نمبر بند آ رہا تھا۔ تاہم بعد میں ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اسے کو اٹھا لیا گیا ہے۔‘

محمد اسحاق کہتے ہیں کہ ہم فیاض کے کئی ماہ بعد گھر آنے پر خوش تھے، بلکہ وہ بھی ہمارے درمیان عید منانے پر خوش تھا۔ لیکن اب بیٹے کی گمشدگی کے باعث ہمارا پورا خاندان ایک غم میں مبتلا ہے اور ہمیں اس وقت اس کی خیریت کی تشویش ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کسی گھر کا ایک فرد جیتے جی لاپتہ ہو جائے اور یہ بھی علم نہ ہو کہ وہ کس حال میں ہے تو ایسے لوگوں کی کیا عید ہو گی۔‘

ڈاکٹر تنظیموں کی احتجاج کی دھمکی

بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر تنظیموں نے فیاض لاشاری کی مبینہ گمشدگی کی مذمت کرتے ہوئے ان کی عدم بازیابی کی صورت میں ہسپتالوں کے بائیکاٹ اور احتجاج کی دھمکی دی ہے۔

کوئٹہ میں دیگر ڈاکٹر تنظیموں کے عہدیداروں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے صدر ڈاکٹر کلیم اللہ خان نے الزام عائد کیا کہ ’ہمارے دو ڈاکٹروں فیاض لاشاری اور نبی داد بگٹی کو زیارت کراس پر جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ دوڈھائی ہفتوں کے دوران یہ ڈاکٹروں کے مبینہ اغوا کا دوسرا واقعہ تھا اور اس سے قبل قلعہ عبداللہ سے ڈاکٹر عبدالہادی کو ان کے کلینک سے اغوا کیا گیا تھا۔ لیکن ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ صوبے میں ڈاکٹر اس وقت عدم تحفظ کا شکار ہیں کیونکہ نہ وہ ہسپتال میں محفوظ ہیں، نہ گھر میں اور نہ ہی کہیں اور۔

ڈاکٹروں کی تنظیم کے عہدیدار ڈاکٹر وکیل شیرانی نے کہا کہ ماضی میں بھی ڈاکٹروں کے ساتھ یہ ہوتا رہا جس پر ڈاکٹر نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

ڈاکٹر کلیم اللہ خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے حکومت اور متعلقہ ضلع کی انتظامیہ سے ڈاکٹروں کی بازیابی کے لیے رابطہ کیا لیکن اب تک ان کی جانب سے کوئی خاص جواب نہیں دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی ڈاکٹر کے خلاف کوئی الزام ہے تو بتایا جائے تو ہم خود حکومتی اداروں کے ساتھ تعاون کریں گے لیکن ہم ڈاکٹروں کے اغوا یا ان کو لاپتہ کرنے کے عمل کو کسی طرح برداشت نہیں کر سکتے۔