بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی کیمپ آج 5020 ویں روز جاری رہا۔
آج بی ایس او کے سابقہ چیئرمین امان اللہ بلوچ، مستونگ سے سیاسی کارکنان مجیب الرحمٰن، ڈاکٹر طارق اور دیگر مکاتب فکر کے لوگوں نے اظہار یکجتی کی۔
تنظیم کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ عید کا سورج جہاں خوشیاں اور مسکراہٹیں لے کر طلوع ہوتا ہے وہاں وہ اقوام جو غلامی کی زنجیروں میں جھکڑے ہیں اُن کے لئے عید کی خوشیاں سطی و غم نما ہوتی ہیں۔ عید کے بابرکت دن کو بھی وی بی ایم پی کی طرف سے قابض کے لئے صاف پیغام ہے کہ جبر ظلم گمشدگیاں شہادتیں غلامی کو دوام نہیں دے سکتیں۔ بلکہ وطن کی سفر کا حصہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قوم لاپتہ افراد کے لواحقین کی آواز بنیں اور ان کے پیاروں کی بازیابی کے لئے آواز اٹھائیں۔
انکا کہنا تھا کہ حالات نے ثابت کر دیا کہ ریاستی پالیسی ناکام ہو چکی ہے قابض ریاست اپنی تمام سفاکیت جبر تشدد کے باوجود بھی قوم میں خوف اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے جنون و جذبہ اقر شعوری جدجہد کو زیر نہ کر سکی۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ شہید ہونے والے بلوچ فرزندوں کا عمل آج ہر بلوچ کے لئے باعث فخر ہے واضح مقصد منطقی نظریہ کی وجہ سے کاروان میں روز بروز شہیدوں کی لہو جہد کاروں کی انتک محنت سے روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کی تمام ظلم و جبر قتل غارت تشدد کے باوجود پر امن جدجہد ریلی خود بلوچوں کو قربانی کے فلسفے سے اشنائی کا عمل ہے۔ مسخ شدہ لاشوں جبری لاپتہ کے تدارک کے لئے تمام اقوام نوجوان خواتین وی بی ایم پی میں شامل ہوجائیں۔ بلوچستان تاریخ کی گمبیر صورت حال سے دوچار ہے انارکی صورت حال سے دوچار ہے انارکی صورت حال ہے لوگ قبائل اپس میں دست گریباں ہیں۔ آج جہد کار شہیدوں کی لہو نے جہد کو نہ صرف دنیا میں متعارف کرایا بلکہ قابض ریاست بھی حواس باختہ ہوگیا ہے۔
ماما نے کہا کہ بلوچ پرامن جدجہد نے اکیسویں صدی میں بلوچ روایات کی پاسداری اور اپنی انے والی نسلوں کی خوشحالی کے لئے تاریخ اور مورخ کو بلوچ قوم کی جانب مجبور کیا ہے۔