تصویر کہانی – برزکوہی

987

تصویر کہانی

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

جب عظیم بلوچ شاعرہ مہناز کو شھداد نے جھوٹے الزامات و تہمت کے کٹہرے میں لاکھڑا کرکے، انگشت نمائی کرنے کی غرض سےالزامات کی بوچھاڑ کردی، مہناز چپ ہوئی، سنتی گئی، تہمتیں برداشت کرگئی لیکن اپنی بے گناہی خاموشی سے شاعری کی صورتان الفاظ کے ساتھ تاریخ کے حوالے کرگئی

من ھماں ھنجیراں مزن تاخیں

کہ رستغاں جے ھین ایں گرءُ گٹاں

تنک تڑیں کُمبانی سرءَ رستاں

ڈکھنڑیں گواث کہ ہر گرے کشی

اکثرءَ درشکانی سرءَ چنڈی

سرمنی ھچ گواثءَ نہ چنڈینتہ

بیخ منی ھچ ھورءَ نہ میسیں تہ

( میں بڑے پتوں والی انجیر کا وہ درخت ہوں، جو دشوار گزار چٹانوں کی گہری کھائیوں میں اگا ہے، تنگ دروں میں جھیلوں کے کنارے،جنوبی ہوائیں جب ہر طرف سے چلتی ہوں، تو اکثر درختوں کی شاخوں کو ہلا ڈالتی ہیں، مگر میرا سر کوئی بھی ہوا نا ہلاسکی، میراتنا کوئی بھی بارش نا بھگو سکی)

زمانے بیتے، تاریخ کا فیصلہ آگیا، مہناز برحق، مہناز پاک، مہناز فاتح نکلی۔ تم آج ایک اور مہناز کو جبر و تہمت کے کٹہرے میں کھڑاکرکے تماشہ بنانا چاہتے ہو، تم، جو بھول گئے ہو آدابِ مزاحمت کہ بے بس کرسکتے ہو لیکن جیت نہیں سکتے، تم زور چلاو، ہم خونجلائیں، منصف تم سے، کٹہرا تمہارا، تاریخ ہم سے، روشنی ہمارا۔ مہناز ایک بار پھر تاریخ میں فاتح نکلے گی۔

قفس بند،  درندوں و وحشیوں کی وحشت و درندگی کی گولیوں سے لیس بندوقوں کی نلی کے زیر، جسمانی و ذہنی تشدد و اذیت، چیخ وپکار، سسکیاں اور درد ناک صدائیں۔ ایک فریفتہ وطن پری زادی اپنے وطن زادوں، وارثوں، سورماوں ، غیرت مندوں، باعلم و باشعوروںکے لیئے پس زندان۔

میں ہانی ہوں، میں سمی ہوں، میں بانڑی ہوں ،میں بیبو ہوں، میں گرناز ہوں۔ میں ہمیشہ سنتی اورسمجھتی تھی کہ میں لج ہوں، میںننگ ہوں، میں عزت ہوں، میں باہوٹ ہوں،  میں محبت ہوں۔

میرے وارثوں! کہاں ہو؟ سورماوں کہاں ہو؟  بیرگیروں کہاں ہو؟ کہاں ہو، غیریت کی پگڑی باندھنے والے جانبازوں؟

مجھے گلہ نہیں، نہ ہی مجھے شکایت ہے، میرے جسم سے ٹپکا لہو اور میری رات بھر بہتے ہوئے آنسو، میری خاک میں جذب ہوئے،میری چیخ و پکار اور سکسیاں میرے وطن کی ہواوں میں تحلیل ہوئے، اب وہی میری نشانی، وہی میری کہانی بنیں گے۔

قفس و تشنگی آزادی کی کشمکش  میں، بے بسی کی عالم میں، ایک شیرزال، ایک گودی، ایک لمہ اور غیرت و جرت کی ایک داستان ایکتاریخ ایک کہانی۔

میرا گناہ، میرا قصور، میرا وطن ہوا، میری غیرت ہوئی، میری عزت ہوئی ،میری سوچ ہوئی، میرا کردار ہوا،  میرا قبیل ہوا اور  جس قومسے میں ہوئی، وہ قوم ہوا۔

وحشیوں نے اپنی وحشت، اپنی اذیت و تشدد سے مجھے وقتی گنہگار ثابت کرنے کی  ایک کوشش تو کرلی، مجھے مجبور و لاچار اوربے بس کردیا،

لیکن مورخ اور تاریخ زندہ ہیں

وہ لکھیں گے کہ گناہ کیا ہے؟

اعترافِ شکستگی ہے

تو سزا کیا ہے؟

عشق ہے

تو جزا کیا ہے؟

فغاں ہے

تو ثناء کیا ہے؟

ابد کس کا

اور فنا کیا ہے؟

بھینٹ ہے تو

پناہ کیا ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں