تربت: عیدالفطر کے روز جبری لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاج

325

عیدالفطر کے پہلے روز بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف مخلتف شہروں میں احتجاج کیا جارہا ہے۔

ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں لاپتہ افراد کی لواحقین اور بی ایس او کے زیر اہتمام احتجاج کیا گیا۔

احتجاجی مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ، بینرز اور لاپتہ افراد کی تصویریں اٹھا کر شہید فدا چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور تمام جبری لاپتہ افراد کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا۔

اس موقع پر مظاہرین نے کہا کہ ہمارے احتجاج کا بنیادی مقصد قومی اور بین الاقوامی سطح پر ریاستی جبر و تشدد اور بلوچ قوم کے ساتھ جابرانہ رویے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا ہے تاکہ مہذب اقوام بلوچستان میں ریاستی جبر پر لب کشائی کرکے یہاں کے لوگوں پر جبر اور ستم کو روکنے میں کردار ادا کرسکیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنے پالیسیوں پر نظرثانی کرے اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے، بلوچ قوم راستے پر پڑا کوئی پتھر نہیں کہ جسے کسی دیوار میں پیوست کیا جائے اور وہ چپ رہے، بلوچ ازل سے مزاحمتی کردار کا مالک رہا ہے، اگر بات بلوچ کی بقاء کی ہو تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔

بی ایس او پجار کے سینیئر وائس چیئرمین بوھیر صالح بلوچ، بی ایس او کے سنٹرل کمیٹی کے ممبر کریم شمبے بلوچ، صدر باھوٹ چنگیز بلوچ، تربت سیول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست بلوچ اور لاپتہ افراد کے لواحقین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر لاپتہ افراد جلداز جلد باحفاظت واپس بازیاب نہ کئے گئے تو مظاہرے مزید منظم انداز میں پھیلائے جائیں گے اور ان سب کا ذمہ دار ریاست ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ماہل بلوچ پر جھوٹا الزام لگا کر جیل میں اب انکی میڈیا ٹرائل کی جاری ہے اور روزانہ ایک نیا بیانیہ اپنایا جاتا ہے جس سے ثابت ہوتا کہ ریاست جھوٹ بول رہی ہے۔

لاپتہ افراد کے لواحقین نے اس موقع پر اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ مجرم ہیں تو عدالتوں میں پیش کئے جائیں۔