بی این اے کے الزامات طفلانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ خلیل بلوچ

1311

بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق چیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے خلاف بلوچ نیشنلسٹ آرمی کے ترجمان مرید بلوچ کی جانب سے لگائے گئےالزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بی این اے کے الزامات انتہائی طفلانہ ہیں جو آئی ایس آئی کے پروپیگنڈہ اوربلوچ دشمن منصوبےکو تقویت پہنچانے میں معاونت کے مترادف ہے۔ گلزار امام دشمن کی چالاکی اور اپنی نادانی و ناپختگی سے گرفتار ہوئے۔ گلزار امامکی گرفتاری سے جڑے تمام معاملات کا ملبہ آزادی پسند پارٹیوں اور مجھ پر ڈالنادشمن کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے سوا کچھ بھینہیں۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا گوکہ گلزار امام  آزادی پسند تھے لیکن ہماری ان سے  تنظیمی سطح کبھی رابطہ یا ہمکاری نہیں رہا۔ بلوچنیشنل موومنٹ اور ان کے طرز جدوجہد میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسی طرزِ جدوجہد کی وجہ سے ہمیں ان سے کبھی رابطے کیضرورت نہیں پڑی اور نہ ہی ہم نے ان سے سفارت کاری کے لیے رابطہ کیا۔ سفارت کاری کے لیے بلوچ نیشنل موومنٹ کے پاس باقاعدہخارجہ ڈیسک اور خارجہ سیکریٹری موجود ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر کیڈر کی ایک کھیپ موجود ہے جو سفارت کاری اور رابطہکاری کے میدان میں  اپنی فرائض انتہائی ذمہ داری سے نبھارہے ہیں تو ایسے میں بحیثیت چیئرمین بی این ایم میں بی این اے جیسےمسلح تنظیم کے مبینہ سربراہ گلزار امام کو سفارت کاری کی ذمہ داری کیسے سونپ سکتا ہوں؟

خلیل بلوچ  نے کہا جہاں تک گلزار امام کی گرفتاری کا تعلق ہے تو یہ مکمل طور پر ان کی تنظیم کا اندرونی معاملہ ہے۔ یہ صرف انکی تنظیم کے لوگ جانتے ہوں گے کہ کس طرح آئی ایس آئی نے انہیں اپنی جال میں پھنسایا اور کس طرح دوسرے ملک بلاکر گرفتارکیا۔ سرفرازبنگلزئی مریدبلوچ  گلزار امام کے ڈپٹی کمانڈر اور ترجمان  ہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ گلزار نے انہیں اعتماد میں نہیںلیا اور دوسری پارٹیوں کے رہنماؤں سے مشورہ کیا؟ میرے علم کے مطابق گلزار امام نے اپنے سفر اور سفرکے مقاصدکے بارے میںکسی بھی دوسری آزادی پسند رہنما سے مشورہ نہیں  کیا ہے۔ اس کا دوسرے ملک سفر کرنا اور سفارت کاری صرف اس کی تنظیمکے ذمہ داروں کو معلوم ہوگا جن میں مرید خود شامل ہیں۔ اگر گلزار امام ذرا سی بھروسہ اور پختگی کا مظاہرہ کرکے اپنے آزادیپسند دوستوں اوراتحادیوں سے مشورہ کرتے تو یہ نوبت ہرگز نہ آتی۔ لیکن افسوس کہ انہوں نے تمام تحریکی، تنظیمی ذمہ داریوں اورحساسیت کو بالائے طاق رکھا اور ایک ایسی راہ پرچل پڑے جس کا انجام ان کی گرفتاری کی صورت میں نکلا۔

چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ  ایک کلپ نوٹ شائع کیا گیا ہے جس میں گلزار میرے اورمیرے دور کے بی این ایم کے وائس چیئرمینڈاکٹر خدابخش پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ ہم نے ان کے رابطے استوار کیے ہیں۔ اس ریکارڈنگ کو شائع کرنا اور مجھ پر الزام عائدکرنا بی این اے کے موجودہ لیڈرشپ کی طفلانہ سوچ اور نادانی کی عکاسی کرتا ہے۔ پولیس حراست میں لیے گئے اعترافی بیان پرمہذب معاشروں میں عدالتیں بھروسہ نہیں کرتے حتیٰ کہ پاکستان کی کرپٹ عدالتی نظام میں بھی ایسے بیانات بطورثبوت قابل قبولنہیں سمجھے جاتے۔ مگر حیرت کا مقام ہے کہ آئی ایس آئی جیسے درندہ صفت ادارے کے حراست میں لیے گئے گلزار امام کے بیاناتسرفراز بنگلزئی کے لیے قابل بھروسہ ہیں جس نے اس کے مبینہ بیان یا آئی ایس آئی کے منصوبے کے مطابق فون کال آزادی پسندوںکے خلاف بطور ثبوت شائع کیا ہے۔ سوچنے اورسمجھنے کی بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی گلزار امام بلوچ پر اتنا مہربان کیوں ہے کہگرفتاری کے بعد نہ صرف اسے آزادانہ ماحول میں رہائش کی اجازت دی جاتی ہے بلکہ اسے اس کے ساتھیوں کے ساتھ بات چیت اورحال حوال کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اس پر سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا بی این اے کا بیان تضادات سے بھرپور ہے اور اپنی سابقہ بیانات کی نفی کررہاہے۔ بی این اے نے سات اپریل کو ایکبیان جاری کیا تھا جس میں ان کا موقف تھابی این اے یہ خدشہ ظاہر کرتی ہے کہ ناپاک ریاست پاکستان گلزار امام کو ایک سالسے گرفتاری کے دوران تشدد کے بعد برین واش کرکے ان سے جھوٹے الزامات کے ذریعہ ایک پروپگنڈہ مہم شروع کرے گیلیکن یہیبی این اے آئی ایس آئی کے حراست میں قید برین واشنگ اور منصوبہ بندی سے کیے گئے گلزار امام کی بات چیت کو آزادی پسندوںکے خلاف استعمال میں لا رہا ہے۔ حالانکہ تحقیقات تو اس بات کی ہونی چاہئے کہ ایک سال سے آئی ایس آئی کے قید میں بند گلزارامام کس طرح  آزادی پسندوں سے رابطہ کر رہا ہے اور انہیں آزادی پسندوں کے خلاف ورغلا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بی این اےاپنی طفلانہ سوچ سے آئی ایس آئی کے ایجنڈے پر کاربند ہے جس کے نتائج انتہائی منفی برآمد ہوں گے۔