بی ایس او آزاد کا تئیسواں مرکزی کونسل سیشن، بلوچ نوجوانوں کیلئے اس کی اہمیت ۔ ہارون بلوچ

485

بی ایس او آزاد کا تئیسواں مرکزی کونسل سیشن، بلوچ نوجوانوں کیلئے اس کی اہمیت

ٹحریر: ہارون بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کسی بھی قومی تحریک و جدوجہد آزادی کو مضبوط اور منظم بنانے کیلئے قومی تحریک سے جڑے تنظیم اور اداروں کا کردار نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ قومی تحریک کو عوام کے اندر منظم کرنے، نواجوانوں کو اس کے حوالے سے آگاہی دینے ، عوام کو قومی جدوجہد کیلئے قربانی دینے کیلئے فکری و نظریاتی طور پر تیار کرنے، قومی تحریک کے حوالے سے ریاستی کاؤنٹر پالیسیوں کو عوام کے سامنے لانے اور عوام کو قومی تحریک میں شرکت کرانے میں سیاسی تنظیم اور جماعتوں کا کردار نہایت ہی کلیدی رہتا ہے۔ قومی اور سیاسی جماعتیں عوام کو یہ بات باور کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ ان کی غلامی ہی ان کی موجودہ حالات کا زمہ دار ہے۔ قبضہ گیر کی ہمیشہ سے کوشش ہوتی ہے کہ ان سیاسی جماعت اور پارٹیوں کو کسی بھی طرح کاؤنٹر کریں اور انہیں عوام سے جڑنے نہ دیا جائے لیکن قومی تنظیمیں فکری اور نظریاتی بنیادوں پر مستحکم ہوتے ہیں اس لیے وہ کسی بھی سختی اور مشکلات کے باوجود اپنے جدوجہد کو جاری رکھتے ہیں۔

مختلف قومی تحریکوں کے حالات مختلف رہے ہیں اور ہر انقلاب کے اپنے زمینی حقائق رہے ہیں جس کی وجہ سے مختلف قومی تحریکوں میں پارٹی، تنظیم اور تحریک سے جڑے افراد نے مختلف طریقہ کار سے قومی تحریک کی بنیاد استوار کیے ہیں۔ جیسے کہ افریقہ میں قومی تحریک کو استوار کرنے میں اہم کردار ان افراد کا تھا جنہوں نے پرتگال سمیت مختلف نوآبادیاتی ریاستوں میں جاکر تعلیم حاصل کی اور بعدازاں انہوں نے واپس اپنے زمین پر آکر پارٹی کی شکل میں قومی تحریک کو منظم و متحرک کیا جس میں گیبرال جیسے لوگ شامل تھے اسی طرح کی کچھ مثالیں ہمیں برطانوی کالونیوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے چونکہ بلوچستان میں پارٹی اور جماعتی سوچ نہ ہونے کی وجہ سے یہ زمہ داری طلباء پر عائد ہوئی جنہوں نے قبضہ گیر کے یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنا شروع کیا اور واپس آکر اپنے عوام کے اندر گھل مل گئے۔ بی ایس او کو بلوچ قومی تحریک میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے قومی تحریک کو عوام اور بلخصوص نوجوانوں کے اندر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور تحریک کو بنیاد سے کیڈرز فراہم کرنے کا عمل شروع کیا۔ پہلے پہل یہ عمل صرف کیڈرز کی حد تک محدود تھا اس کی وجہ بلوچ قومی تحریک پر قبائلی اثرات و بلوچ سماج میں قبائلیت کا مضبوط اسٹریکچر تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بلوچوں میں پڑھنے کا رجحان زیادہ بڑا اور اکثر و بیشتر طلباء تعلیم کے غرض سے اسکول و یونیورسٹیوں کا رخ کرنے لگے جس کے بعد بی ایس او کیلئے بلوچ قومی تحریک کو ایک نئے شکل اور سمت میں تبدیل کرنے کا موقع ملا۔

جو بی ایس او پہلے کیڈرز اور پارٹیوں و قبائلی افراد کے اثرات کے اندر کام کرتے ہوئے نوجوانوں اور طلباء کی تربیت کر رہی تھی انہوں نے بلوچ قومی تحریک کو قیادت فراہم کرنا شروع کیا۔ قومی تحریک کی حالیہ فیز اور اس میں جدت لانے میں اہم کردار بی ایس او کا تھا جنہوں نے صرف کیڈر ہی نہیں بلکہ قومی تحریک کو قیادت کی سطح پر افراد دینا شروع کیا جنہوں نے بلوچستان میں پارٹیوں کی بنیاد رکھنا شروع کی اور عوام میں جلد ہی انہیں پذیرہائی ملی۔ بی ایس او کا کردار کسی بھی دورانیہ میں کم یا کمزور نہیں ہوا ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت اور اس کی اہمیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

دوہزار سے دوہزار تئیس کا دورانیہ بہت بڑھا اور اس میں کافی حد تک تبدیلیاں آئی ہیں۔ صرف ریاستی سہولیات میں ہی نہیں بلکہ نظریاتی و فکری اور علمی بنیاد پر بھی تحریک میں ایسے جدت اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو ایک ایسی کیڈر فراہم کر سکتی ہے جس کے ذہن میں اکیسویں صدی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہوں۔ پاکستانی ریاست آج طاقت کے بل بوتے پر اپنا قبضہ قائم کرنے میں کامیاب ہے، اس سے پہلے بلوچ قوم کو یہ باور کرانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا کہ ان کا سرزمین جبری طور پر پنجابی ریاست نے قبضہ کرکے انہیں غلام بنایا ہوا ہے لیکن آج حالات مختلف ہیں آج بلوچستان میں قومی شعور ایک متحرک انداز میں موجود ہے آج بلوچ قوم کو ان کی غلامی کا احساس ہوا ہے اور وہ پاکستانی قبضے سے چھٹکارہ چاہتے ہیں اس لیے اب یہ جدوجہد ایک الگ لیول پر آ پہنچی ہے۔ اب بلوچ قومی تحریک کو اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک ریاست کے مقابلے قومی تحریک کو بطور ریاست قوم کیلئے متبادل کے طور پر کس طرح پیش کر سکتی ہے اور اس کیلئے قومی تحریک کو ایسے افراد اور باصلاحیت نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اس دور کے جدید حالات کا صرف اندازہ ہی نہ لگا سکیں بلکہ ان کا توڑ بھی نکال سکیں اس لیے اب بلوچ نوجوانوں اور بلخصوص بی ایس او آزاد پر یہ زمہ داریاں عائد ہیں کہ وہ بلوچ نوجوانوں کی کس طرح علمی اور فکری بنیاد پر تربیت کر سکتی ہے جو انہیں اتنی باصلاحیت بنا سکیں جو بلوچ قومی تحریک کو ریاست کے متبادل کے طور پر متعارف کرانے میں کامیاب ہو جائیں۔

گوکہ آج حالات کی سختی سے کوئی انکاری نہیں، جبر، وحشت، گمشدگی اور لاشیں آج نہیں بلکہ پاکستان گزشتہ بیس سالوں سے یہ عمل دوہرا رہی ہے اور اس میں دن بدن شدت آتی جائے گی بلکہ بلوچ نوجوانوں کو اس کا بھرپور تجربہ حاصل ہے جو گزشتہ بیس سالوں سے اپنے نوجوانوں کے لاشوں کو کندھا دے رہے ہیں اور لاشیں یا قبریں کبھی بھی قومی تحریکوں کے راستے بند نہیں کرتے بلکہ وہ پالیسیاں اور محدود سوچ تحریک اور تنظیم کو کمزور کرتی ہے جو انفرادیت پر مبنی ہو بلکہ آج کے دور میں اداروں کے سامنے انفرادیت اپنی حیثیت مکمل طور پر کھو چکی ہے اس لیے ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو ایک نہیں بلکہ ہزاروں ایسے افراد کو تیار کریں جو کسی بھی حالات میں تحریکی زمہ داریوں کو اپنے کندھون پر لینے کی ہمت کر سکیں۔ آج اگر امریکہ جیسی طاقتیں دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں تو اس کی وجہ وہاں کے کرشماتی شخصیات نہیں بلکہ وہ ہزاروں ادارے ہیں جنہوں نے امریکہ کو ہر شعبے میں متحرک اور ایک مضبوط ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔ بلوچ قومی تحریک کے اندر اس سوچ کو پروان چھڑانے کی انتہائی ضرورت ہے کہ فرد نہیں بلکہ ادارے قوموں کی نجات کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لیے توجہ افراد کو اداروں کی شکل میں منظم کرنے پر دینی چاہیے تاکہ ایسے منظم ادارے تشکیل پا سکیں جو متبادل کا کردار ادا کر سکیں۔ موجودہ تحریک اور حالات میں سطحی سوچ کی کوئی بھی گنجائش موجود نہیں اور سطحی اور کمزور سوچ مکمل تباہی کے سوا کچھ بھی نہییں ہے۔
بی ایس او نے جس طرح موجودہ قومی تحریک کی آبیاری میں کردار ادا کیا ہے وہ قابل دید لیکن یہ مکمل کام نہیں بلکہ آج بھی بہت سے ایسے لیپس موجود ہیں جنہیں پر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بی ایس او نے قومی تحریک کو شاید ایسے نوجوانوں کا مجتمح دیا ہے جو قومی جذبے سے سرشار انقلابی فکر سے اور نظریات سے لیس قومی آزادی اور وطن کی غلامی کے خلاف جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں لیکن بی ایس او کی زمہ داریاں وقت کے ساتھ تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اب بی ایس او کی قیادت کے کندھے پر مختلف زمہ داریاں ہیں جہاں ایک طرف دشمن کے اداراتی اسٹریکچر کا توڑ نکالنے کی ضرورت ہے وہیں ہزاروں کی تعدادمیں بلوچ طلباء کو کرپٹ پاکستانی نظام سے نکال کر قومی آزادی کی جدوجہد میں شرکت کرنے کیلئے تیار کرنا ہے۔جدید حالات کے جدید چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے ایسے سوچ اور صلاحیت کی ضرورت ہے جو عمل اور طریقہ کار میں جدت لانے کے ہنر رکھتے ہوں۔ موجودہ طور صلاحیت اور ہنر کا دور ہے اس میں صرف جذبات کی بنیاد پر نتائج نہیں نکل سکتے بلکہ ریشنل اپروچ کی ضرورت ہے جو مطلوبہ نتائج نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

بی ایس او آزاد اپنے تئیسواں مرکزی کونسل سیشن کی جانب گامزن ہے۔ ان حالات میں جہاں دشمن بلوچستان کے چپے چپے پر قابض ہے وہاں کونسل سیشن جیسے اہم اور بڑے پروگرام کا انعقاد کرنا ہی بڑی بات ہے لیکن بی ایس او آزاد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے ہر مشکل اور سنگین حالات میں قیادت تبدیل کرنے کے عمل کو جاری رکھا ہوا ہے اور کونسل سیشن کے پروگرامز کو مقررہ وقت میں منعقد کرنے میں کامیاب ہو پائی ہے۔ کونسل سیشن جیسے اہم اور بڑے پروگرام کا وقت پر منعقد کرنا ہی عظیم کامیابی ہے جس کیلئے بی ایس او آزاد کی قیادت داد کی مستحق ہے لیکن بی ایس او آزاد کے کونسل سیشن کی اہمیت اس سے بھی بڑا ہے کیونکہ قومی تحریک کے ایک اہم جز ہونے کی حیثیت سے تنظیم کے قیادت اور اپروچ میں تبدیلی اور جدت ہمیشہ سے اہمیت کا حامل ہے۔ ہزاروں بلوچ نوجوانوں کا انحصار بی ایس او آزاد کے پروگرام اور پالیسیوں پر ہے کہ وہ بلوچ نوجوانوں کیلئے کیسے پروگرام تیار کرتے ہیں تاکہ ہر بلوچ نوجوان بلوچ قومی تحریک میں اپنا متحرک کردار ادا کر سکیں اور اس جدوجہد کو کامیابی کی طرف گامزن کر سکیں۔ امید اور یقین کے ملے تلے جذبات کے ساتھ یہ امید کرتا ہوں کہ بی ایس او آزاد کی قیادت قومی تحریک کی موجودہ انتہا کا بہترین ادراک رکھتے ہوئے مزید منظم اور محکم اداراتی سوچ و فکر اور انقلابی عمل کے ساتھ بلوچ نوجوانوں کی فکری و علمی تربیت کا فریضہ انجام دے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں