بچوں کے جنسی استحصال میں اکثریت پاکستانی مردوں کی ہے۔ برطانیہ

383

برطانوی وزیراعظم رشی سونک کا کہنا ہے کہگرومنگ گینگزکے متاثرین کو سیاسی وجوہات کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا ہے۔

پیر کو حکومت نے گرومنگ گینگز کے موضوع پر مزید ڈیٹا اکٹھا کرنے کی یقین دہانی کروائی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ مشتبہافراد انصاف سے بچنے کے راستے کے طور پرثقافتی یا نسلی حساسیت کے پیچھے نہ چھپ سکیں۔

گرومنگ گینگز بچوں کا جنسی استحصال کرنے والے گروہوں کو کہا جاتا ہے۔

حکومت کا یہ منصوبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برطانوی وزیر خارجہ سویلا بریورمین نے گرومنگ گینگز میں ملوث افراد کینسل کے بارے میں متعدد تبصرے کیے ہیں

برطانوی اخبار میل آن سنڈے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہایہ مجرم مردوں کے گروہ ہیں، جن میں تقریباً تمام

پاکستانی نژاد برطانوی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان گینگز میںاکثریتپاکستانی نژاد برطانوی مردوں کی ہے۔

ان کے اس بیان کو ویسٹ یارکشائر کی لیبر میئر ٹریسی بریبن نےڈاگ وِسلکا نام دیا ہے، یعنی مخصوص گروپ کو نشانہ بنانے کےلیے سیاسی پیغام دینا۔

اس کے علاوہ برطانوی وزیر خارجہ پربدنام دقیانوسی تصوراتکو ہوا دینے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

ہوم آفس نے واضح کیا ہے کہ برطانوی وزیر خارجہ روشڈیل، رودرہیم اور ٹیلفورڈ کے تین انتہائی بدنام زمانہ گرومنگ گینگ کیسز کےبارے میں بات کر رہی تھیں۔

سنہ 2014 میں رودرہیم کیس کا آزادانہ جائزہ لیا گیا اور اس کے نتیجے میں شائع ہونے والے رپورٹ میں، پروفیسر الیکسس جے نے یہنتیجہ اخذ کیا کہمجرموں کی اکثریت پاکستانی وراثت سے تعلق رکھتی تھی۔اس جائزے میں 2010 میں سزا یافتہ پانچ افراد کوبھی شامل کیا گیا۔

گریٹر مانچسٹر پولیس نے فروری 2012 میں روشڈیل سکینڈل کے مقدمے میں سزا پانے والے افراد کی شناخت پاکستانی نژاد برطانویمردوں کے طور پر کی۔ جبکہ ٹیلفورڈ کیس کی آزادانہ انکوائری میں لکھا گیا کہ بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کرنے والوں کا تعلقجنوبی ایشیائیکمیونٹی سے تھا۔

ان جائزوں میں پولیس اور سماجی اداروں کی ٹیموں کے درمیان ان خدشات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اگر وہ غیر سفید فام مجرموںکے گروہوں کا تعاقب کرتے ہیں تو ان پر نسل پرستی کا الزام لگایا جا سکتا

تھا۔

وزیر خارجہ نے جن کیسز کا ذکر کیا ہے ان سمیت دیگر کیسز میں بھی (جن میں مجرم غیر سفید فام تھے) سوشل میڈیا پر مہم چلانےوالوں کی طرف سے زبردست ردِعمل سامنے آیا تھا۔

اس کے مقابلہ میں 2010 میں کارنوال کے کمبورن علاقے میں 30 بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کرنے والے سفید فام مردوں اورایک عورت کے گروہ کو کم توجہ دی گئی۔

ماہرین بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کےبوائے فرینڈیالوور بوائےماڈل کو اب بخوبی سمجھ چکے ہیں۔ اس ماڈل کے تحتکمزور بچوں سے دوستی کی جاتی ہے، انھیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ ایک آدمی ان سے پیار کرتا ہے اور ان کی دیکھ بھال کرتا ہے،پھر آہستہ آہستہ متاثرین جنسی استحصال اور دھمکیوں کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔

لیکن یہ تجویز کہ مجرموں کی نسل، ایسے گروہوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے، درست نہیں۔ کم از کم موجودہ شواہد کی بنیاد پر اسخیال کی تائید کرنا مشکل ہے۔