بلوچستان میں عید اور جبری گمشدگی کمیشن کی رپورٹ – ٹی بی پی اداریہ

202

بلوچستان میں عید اور جبری گمشدگی کمیشن کی رپورٹ

ٹی بی پی اداریہ

عید خوشیوں بھرا مذہبی تہوار ہے لیکن بلوچستان میں جبری گمشدہ افراد کے خاندان عید کا دن بھی احتجاج میں گزار دیتے ہیں۔ آج عید کے دن کوئٹہ ، تربت، خضدار، گوادر اور اسلام آباد میں جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ عید کے روز مظاہروں اور لواحقین سے اظہار یکجہتی کے لئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر کمپئن چل رہا ہے۔

خضدار میں سائرہ بلوچ اپنے بھائیوں آصف اور رشید کی بازیابی کے لئے احتجاج کررہی ہے جو پانچ سال سے جبری گمشدہ ہیں، گوادر میں رخسانہ بلوچ اپنے دس سال سے جبری گمشدہ بھائی عظیم دوست کے لئے احتجاج کے لئے نکل رہی ہیں اور کوئٹہ میں پانچ ہزار دن سے احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ماما قدیر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کو ختم کرنے کے لئے عید کا دن بھی احتجاج میں گزار رہے ہیں۔

جبری گمشدگیوں نے بلوچستان کے ہزاروں خاندانوں کو نفسیاتی اور معاشی حوالے سے شدید متاثر کیا ہے اور بلوچستان میں مذہبی و قومی تہوار بھی احتجاج میں گزر جاتے ہیں، طویل احتجاج، لانگ مارچ و دھرنوں کے باجود جبری گمشدگی میں کمی کے بجائے اضافہ ہورہا ہے اور جبری گمشدہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کیا جارہا ہے۔

عید سے کچھ دن پہلے ہی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ’بلوچستان امید کی تلاش میں سرگرداں‘ کے نام سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست اختلاف رائے کو دبانے کے لیے وسیع پیمانے پرجبری گمشدگیوں کا استعمال کررہی ہے اور بلوچستان کے سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو روکنے، جبری گمشدگیوں کے مرتکب افراد کا محاسبہ کرنے اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کی سلامتی اور آزادی کو یقینی بنانے کے لیے بلوچستان اسمبلی سے قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے حکم پر سردار اخترمینگل کی سربراہی میں بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی پر تشکیل دی گئی کمیشن نے فروری 2023ء میں اپنی رپورٹ مکمل کرکے اسلام آباد ہائیکورٹ کو پیش کر دی ہے۔ کمیشن کی رپورٹ نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کو ایک ایسا زخم قرار دیا ہے جو پاکستان کے وجود کومسلسل کمزور کر رہا ہے اور کمیشن نے رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کے مختلف یونیورسٹیوں میں بلوچ طلباء کے ساتھ نسلی امتیاز بھی برتا جاتا ہے۔ کمیشن رپوٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بلوچ طلبا کی جبری گمشدگیوں میں ریاستی ادارے ملوث ہیں اور ان کا یہ عمل اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ 55کی خلاف ورزی ہے۔

ہیومںن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ اور عدالتی کمیشن کے سفارشات پر عمل کرکے جبری گمشدگی کے مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے پارلیمنٹ اور عدلیہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پارلیمنٹ، جبری گمشدگی بل پاس کرنے کے باجود بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور گمشدہ افراد کے حراستی قتل کو روکنے میں ناکام ہے جو بلوچ مسئلہ کو حل کرنے کے حوالے سے پاکستانی پارلیمٹ کی نام نہاد بالادستی کی حقیقت کو آشکار کرتی ہے ۔