ایک سال میں سب بدل گیا ۔ علی محمد بلوچ

182

ایک سال میں سب بدل گیا

تحرير: علی محمد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

اس خاندان کا سربراہ جو پیشے کے لحاظ سے ایک ڈرائیور تھا بڑی محنت اور جدوجہد کے بعد اپنے نان شبینہ کا انتظام کر پاتا تھا۔ اسکی زندگی و خواہشات دو وقت کی روٹی کے حصول کو کبھی پار ناکر پائے۔ اپنی زندگی کا بیشتر حصہ موٹر سائیکل منڈی میں گزارا جہاں موٹر سائیکل کی خرید و فروخت کر کے چند سو کماتا۔ اس خاندان کا سفر معمول کے مطابق بخوشی چلتا رہا۔ 29 جولائی 2021 کی رات سے ہی بد بختی کا سایہ اس کنبے کے سر آں پڑا جب انکا لخت جگر ان سے جدا ہوا۔

اس واقعہ کو کچھ مہینے ہی گزر چکے تھے کہ اس کنبے کا دوسرا لخت جگر بھی ایک کرش پلانٹ سے جہاں وہ منشی کا کام کیا کرتا تھا جبری گمشدہ کر دیا گیا۔ ابھی تک پہلے لخت جگر کی جدائی کے صدمے سے اہل خانہ سنبھلے نہیں تھے کہ انہیں اس اجتماعی سزا کے اذیت سے گزرنا پڑا۔ اہل خانہ کو تین مہینے اذیت سے گزارنے کے بعد بآلآخر اسے رہا کر دیا گیا اس واقعے کی انکے معاشی و معاشرتی زندگی پر بہت برے اثرات مرتب کیے۔ اس وقت کمسن داد جان نے اہل خانہ کی ضرورتوں کا ادارک کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے تمام معاملات اپنے نازرک کندھوں پر لئے اور جوانی کی تمام حسرتوں و خواہشوں کو پس پشت ڈال کر خود کو سبزی کی دکان تک محدود رکھ دیا۔ سجاد کی رہائی کے بعد اس بے جان خاندان کی دھڑکنیں کسی حد تک چلنے کے قابل ہوئے مگر بد بختی کے سائے نے پھر سے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

21 اپریل 2022 رمضان کے مہینے میں جب داد جان عنایت معمول کے مطابق ظہر کی نماز ادا کر کے کر مسجد سے اپنے دکان پہنچا ہی تھا کہ موٹر سائیکل سوار پہنچے اور کمسن داد جان عنایت کے جسم میں گولیاں پیوست کر دیں۔ داد جان وہی دڑھپتا رہا۔ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی وہ دم تھوڈ چکا تھا۔ یہ کہر صرف اس خاندان پر نہیں بلکہ خدابادان پر برسا تھا۔ شہید داد جان جو خدابادان کی ہر آنکھ کا تارا تھا ہمیشہ کے لئے اوجھل ہو گیا۔ اسکی شہادت کے تیسرے ہی دن اہلیان پنجگور عنایت حسین کے گھر جمع ہوئے اور جلسے کی شکل میں ایک پریس کانفرنس ہوا۔ کچھ دن بعد ریلی نکالی گئی، مظاہرہ کیا گیا، روشن خیال طلبا نے شمعیں روشن کر کے رات کی تاریخی میں ریلیاں نکالیں، اسپورٹس کلب میں داد جان کی شہادت کا ماتم چلتا رہا۔ اوتھل، کوئٹہ و لاہور کی یونیورسٹیوں میں داد جان کے لئے طلبا نے آواز بلند کی۔ عید کے روز بھی ریلیاں نکلیں، جرگے منعقد ہوئے اور بالآخر ڈپٹی کمیشنر آفس روڈ پر دھرنا دیا گیا جو دس دن تک چوبیس گھنٹوں چلتا رہا۔ پنجگور کے با شعور خواتین نے پہلی بار کسی احتجاج میں یوں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پھر وہ تاریخی ریلی نکلی جس کا گھمان بھی نہیں تھا۔ ضلعی انتظامیہ کے ہوش اڑھ چکے تھے۔ صدائے داد جان خدابادان سے نکل کر پنجگور کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں خواتین دھرنے کے ساتھ سی پیک روڈ منتقل ہونے جا رہے تھے۔ ڈپٹی کمیشنر پنجگور اپنے ہمنواؤں کے ساتھ دھرنے کو روکنے کی تگ و دو میں خوب تگ و دو کر رہا تھا۔ اس وقت تک بہت سے چہرے آشکار ہو چکے تھے اور بہت چہرے اب بھی آشکار ہونے والے تھے جنہیں کمیشنر مکران نے آشکار کر دیا۔

مہینوں سے چلنے والی احتجاجی تحریک اپنی شدت پر پہنچ چکی تھی۔ سی پیک روڑ پینتیس گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی جام تھا۔ کمیشنر مکران دھرنا گاہ پہنچا، آہ و فریاد کی، وعدے کیے، احتجاجیوں کی مانگوں کا لسٹ لیا، اور بر سر اقتدار تک فریاد پہنچانےکے لئے ایف سی کیمپ چتکان روانہ ہوا۔ شام کو واپس دھرنا گاہ پہنچ کر دھرنے میں موجود پارلیمانی پارٹیوں کے نمائندگان سے بات کرنے کی پیشکش کی اور انکوفریق بنا کر تحریری معاہدہ کیا۔ موجود گواہان نے دستخط کئے۔ دو نوٹفکیشن فوری طور نکلوائے گئے اور مزاکرات ختم ہوا۔ پارٹی نمائندوں کی طرف سے اہل خانہ کو یقین دلایا گیا کہ تحریری معاہدہ ہوا ہے تو دھرنا جاری رکھنے کا جواز نہیں بنتا۔ یہ مزاکرات اور وعدے نوروز خان زرک زئی کے واقعے سے کافی مشابعت رکھتے ہیں فرق صرف اتنا تھا کہ نوروز خان کے ساتھ مزاکرات کرنے والے جنریل کی جگہ کمیشنر مکران اور دودا خان کی جگہ پارلیمانی پارٹیوں کے نمائندگان لے چکے تھے۔

بے بس و لاچار عنایت حسین کا کنبہ سب سمجھ کر بھی بے بس رہا۔ یوں بے شمار اذیتین نوازنے کے بعد اس خاندان کی چیخ و پکار کو بھی خاموش کروا دیا گیا۔ نا ان نوٹیفکیشنز پر کوئی عمل ہوا نا کمیشنر مکران نے دوبارہ پنجگور کی طرف نظریں پھیریں۔ ڈپٹی کمیشنر نے بھی خود کا تبادلہ کروا دیا۔ پیچھے رہ گیا تو بس ایک ماں کی آہ پکار، باپ کی خاموشی، بہنوں کے آنسو، بھائیوں کی بے بسی اور بکھرا ہوا خاندان۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں