افغانستان اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے سمر قند میں ہونے والے اجلاس میں ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ٹھوس سفارشات سامنے نہیں آسکیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق خطے کے ممالک نے اس پلیٹ فارم کے ذریعے افغانستان کے حالات کی ذمے داری امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ڈالنے کی کوشش کی۔
وی او اے کے مطابق ایک وسطی ایشیائی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ “سمرقند میں منعقدہ کانفرنس میں امریکہ کو ایک ایسے غیر ذمہ دار کردار کے طور پر پیش کیا گیا جس نے دو دہائیوں تک افغانستان کو تباہ کیا اور اب اس نقصان کی تلافی کرنے سے انکار کر رہا ہے۔”
مذکورہ کانفرنس میں افغانستان، چین، روس، ایران، پاکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔
امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خلاف تنقید کی ایک جھلک روسی وزارت خارجہ کے ٹیلی گرام چینل پر نظر آئی جس میں کہا گیا کہ شرکا نے “اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو ان کی 20 سالہ فوجی مہم کے نتائج کے لیے جواب دہ ہونا چاہیے جس نے افغانستان کو اس کی موجودہ سنگین حالت میں پہنچایا ہے۔”
روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ جنگ کے بعد افغانستان کی تعمیر نو کے لیے مغربی ممالک کو اجتماعی طور پر بنیادی اخراجات کا بوجھ اٹھانا چاہیے۔
ماسکو نے مغربی اداروں کے پاس افغانستان کے قومی اثاثوں کو فوری طور پر غیر منجمد کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ایسا کرنا افغانستان میں انسانی بحران کے حل کے لیے خاص طور پر اہم ہے۔
روس نے “امریکہ اور نیٹو کی افغانستان کے پڑوسی ممالک کی سرزمین پر اپنے فوجی انفراسٹرکچر کو تعینات کرنے کی کوششوں کی “ناقابل قبول” ہونے کا حوالہ دیا۔
کانفرنس کے میزبان ازبکستان نے اپنے بیان میں امریکہ پر براہ راست تنقید سے گریز کیا لیکن اس نے انسانی امداد کی فراہمی اور افغانستان کی معیشت کی بحالی کے لیے مشترکہ میکنزم کی ضرورت پر زور دیا۔
ازبکستان نے کہا کہ اجتماع کے دوران تمام فریقوں نے طالبان کی جانب سے عالمی برادری کو کرائی گئی یقین دہانیوں کا جائزہ لیا۔ ان میں افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل، افغان خواتین کو کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کا مواقع فراہم کرنا اور اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنانا شامل ہیں۔
ازبکستان افغانستان کو وسطی ایشیا کا ایک اٹوٹ حصہ سمجھتا ہے اور اسے وسطی اور جنوبی ایشیا کو جوڑنے کے لیے اپنے جیسے خشکی میں گھرے ملک کے لیے تجارتی راستوں کے لیے اس کی کلیدی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے۔
ایرانی وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے امریکی خارجہ پالیسی کے لیے تہران کی مخصوص نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کو “اس ملک میں کئی دہائیوں کی تباہی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور اس کی تلافی کرنی چاہیے۔”
امیر عبداللہیان نے واشنگٹن پر “افغانستان کے جنوب اور شمال میں داعش اور دیگر دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں کی حمایت اور رہنمائی” کا الزام بھی لگایا۔ داعش نے طالبان کے قبضے سے پہلے اور بعد میں افغانستان میں دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
کانفرنس میں شریک پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان عوام کی مدد کرے۔ انہوں نے افغانستان کو تنہا چھوڑنے اور اس کے مسائل کو پڑوسیوں کو منتقل کرنے کی پالیسی پر بھی تنقید کی۔
حنا ربانی کھر نے افغانستان کے لیے انسانی امداد بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نےکہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے جو عبوری افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی افادیت پر سوال اٹھاتی ہیں۔
خیال رہے کہ درحقیقت مغربی حکومتوں نے افغانستان میں امدادی سرگرمیوں میں شمولیت جاری رکھی ہوئی ہے جب کہ اس امداد کو طالبان انتظامیہ کی براہ راست فنڈنگ کے بجائے بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے فراہم کیا جا رہا ہے۔