بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں آج بڑی تعداد میں لوگوں نے حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کی بازیابی اور گوادر میں سیاسی پابندیوں کے خلاف ریلی نکالی۔
ریلی کے شرکاء نے شدید نعرہ بازی کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان کی بازیابی کا مطالبہ کیا اور انہوں نے مطالبہ کیا گوادر میں سیاسی پابندیوں کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔
ریلی سے حق دو تحریک کے رہنما حسین واڈیلہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہتے ہیں ہم ترقی کے خلاف ہیں، ہم ترقی کے خلاف نہیں ہیں مگر ایسی ترقی ہمیں ہرگز قبول نہیں جہاں پہ استحصال ہو۔
انہوں نے کہا ہم جمہوری لوگ ہیں ہم ترقی کے خلاف نہیں ہیں مگر وہی ترقی جو عوام کے لئے ہو، مولانا کا قصور کیا ہے کہ انہیں گرفتار کرلیا گیا، وزیر اعلیٰ کہتا ہے ٹرالر ختم کئے گئے ہیں اگر ٹرالر ختم کئے گئے ہیں تو فشریز کے انسپکٹر کو کون لوگ اغواء کرکے لے گئے۔
انہوں نے کہا اگر تمام جمہوری راستوں کو بند کرکے ڈیتھ اسکواڈ اور کرپٹ لوگوں کو عوام پہ مسلط کیا جائے گا تو نوجوان پہاڑوں کا رخ نہ کریں تو کہاں جائیں۔ ایک کونسلر سو ووٹ لے کر کامیاب نہیں ہوتا لیکن بلوچستان میں دو سو ووٹ لے کر وزیر اعلیٰ بنتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ عوامی نمائندے ہیں۔
انہوں نے کہا حکومت چاہتا ہے کہ ہم پرتشدد ہوں مگر ہم نے روز اول سے یہ فیصلہ کیا ہم پرامن لوگ ہیں اور پرامن طریقے سے اپنے جدوجہد کو لے کر چلیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ریاست نے پالیسیوں میں تبدیلیاں نہیں کی وہ دن دور نہیں جب بلوچستان میں ایک شخص نہیں ہوگا جو پاکستان کے ساتھ رہنے میں خوش ہو۔
انہوں نے کہا ہم مطالبہ کرتے ہیں گذشتہ دنوں فشریز اہلکار عبدالمطلب کے اغواء کاروں کو گرفتار کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سرکار کے خاص لوگ وہی ہیں جو منشیات فروش ڈاکو اور لٹیرے ہیں، ہمارے اوپر اگر ظلم و جبر ہوگا ہم ریاست کے خلاف پرامن طریقے سے اپنے جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا اسلام آباد میں عمران خان دھرنا دیتا ہے اس کے ساتھ مذاکرات ہونگے اور گوادر میں دھرنا ہوگا تو ان کے لیڈر کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا گوادر اور کیچ کے ڈی سی کو جلد از جلد تبدیل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ترقی کے خلاف نہیں ہیں مگر ہمیں غلامی قبول نہیں۔ ہم برابری چاہتے ہیں اور صرف نام ترقی پہ ہم بلیک میل نہیں ہونگے۔ جب ہم سچ اور حق کی بات کرتے ہیں ہمیں غدار کہا جاتا ہے اور اگر ہم سے جمہوری اور پرامن طریقے سے جدوجہد کا راستہ چھین لیا گیا تو ہم مجبور ہیں کہ ہم کوئی اور راستہ تلاش کریں۔