بلوچستان حکومت نے کوئٹہ میں پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے 147 ارب روپے کی لاگت سے بننے والے 3 نئے ڈیموں کی فیزیبلٹی رپورٹ تیار کرلی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے ڈیموں کو پاکستانی پی ایس ڈی میں شامل کرنے کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کو مراسلہ ارسال کردیا۔
حکام کے مطابق بلوچستان حکومت نے کوئٹہ کو درپیش پانی کی کمی کے سنگین مسئلے کے حل کے لیے تین نئے ڈیمز بنانے کا فیصلہ کیا ہے، محکمہ پی ایچ ای کی جانب سے بابر کچھ ڈیم، برج عزیز خان ڈیم اور ہلک ڈیم کی فیزیبیلٹی رپورٹ اور پی سی ون تیار کرلیا گیا ہے ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجونے وزیراعظم شہبازشریف لکھے گئے مراسلہ میں کہا ہے کہ کوئٹہ کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بابر کچھ ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے ۔
بلوچستان حکومت نے بابر کچھ ڈیم کے علاوہ برج عزیز خان ڈیم اور ہلک ڈیم منصوبوں کی فیزیبیلٹی بھی تیار کی ہے۔
مراسلہ میں مزید کہا ہے کہ ڈیموں کی تعمیر سے کوئٹہ کو پانی کی ضروریات پورا کرنے کے علاوہ سیلابی پانی کے ضیاع اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی بچنا ممکن ہوگا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت کچھ ڈیم کے علاوہ برج عزیز خان ڈیم اور ہلک ڈیم کی تعمیر میں معاونت کرے۔
مراسلے کے مطابق بابر کچھ ڈیم کا تخمینہ لاگت 73 ارب روپے جبکہ برج عزیز خان ڈیم کا تخمینہ لاگت 48 ارب روپے اور ہلک ڈیم کا تخمینہ لاگت 22 ارب روپے ہے ، تینوں ڈیموں کی تعیمر پر تقریبا 143 ارب روپے لاگت آئے گی۔
واضح رہے بلوچستان پاکستان میں گذشتہ سال سیلاب سے متاثر ہونے والا دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ یہاں سینکڑوں افراد ہلاک جبکہ لاکھوں ایکڑ اراضی اور ہزاروں باغات تباہ ہوئے ہیں۔ بی بی سی کی تحقیقات کے مطابق ان نقصانات کی ایک بڑی وجہ وہ چھوٹے ڈیمز ہیں جو سیلاب کے دوران ٹوٹ گئے۔
بلوچستان کے 23 اضلاع میں بنے یہ ڈیمز مکمل یا جزوی طور پر ٹوٹے اور ان سے نکلنے والے پانی کے تیز ریلے راستے میں آنے والی ہر شے بہا کر لے گئے۔
بی بی سی کے پاس موجود سرکاری دستاویزات کے مطابق صوبے میں 169 ڈیمز ٹوٹے جن میں کم از کم 40 ڈیم ایسے ہیں جو مکمل طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ دیگر ڈیمز میں مختلف نوعیت کے نقصانات ہوئے تاہم ان میں سے بیشتر مکمل طور پر غیر فعال ہو گئے ہیں۔ ان میں کچھ ڈیمز ایسے بھی ہیں جو ابھی زیرتعمیر تھے یا ان پر کام مختلف وجوہات کی بنا پر تعمیراتی کام رُکا ہوا تھا۔
دستاویزات کے مطابق ڈیمز ٹوٹنے کے سب سے زیادہ واقعات قلعہ عبداللہ میں ہوئے جہاں 38 ڈیمز تباہ ہوئے۔ کوئٹہ میں 15 چھوٹے ڈیمز ٹوٹے یا ان میں شگاف پڑے جبکہ ضلع خضدار میں یہ تعداد 11 ہے۔
دستاویزات کے مطابق حب، ڈیرہ بگٹی اور بیلا میں نو، نو ڈیمز، کچھی میں سات، چاغی نوشکی، ہرنائی، ژوب اور موسی خیل میں پانچ، پانچ ڈیمز ٹوٹے۔ اسی طرح ضلع خاران واشک اور مستونگ میں چار، چار، کیچ میں تین، کوہلو اور قلات میں دو، دو جبکہ سراب اور ڈکی ڈسٹرکٹ میں سے ہر ایک میں ایک، ایک ڈیم غیر فعال ہوا ہے۔
دستاویزات کے مطابق ان ڈیمز اور صوبے میں کینال سسٹم کی تعمیر و مرمت کے لیے اندازہ لگایا گیا ہے کہ صوبے کو 22 ارب روپے درکار ہوں گے اور ان ڈیمز کی دوبارہ تعمیر یا مرمت کا کام مختلف مراحل میں مسلسل جاری رہا تب بھی اس پر تین سے چار سال کی مدت لگ جائے گی۔ یہاں صورتحال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے جس کی وجہ خشک سالی ہے۔
اکستان میں سب سے زیادہ ڈیمز بلوچستان میں ہیں۔ پاکستان فلڈ کمیشن کی 2020 میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ملک میں کل 1007 ڈیمز ہیں جن میں سے 710 بلوچستان میں ہیں، ان میں بھی 65 ایسے ہیں جن پر ابھی کام شروع نہیں ہوا جبکہ ڈیڑھ سو کے قریب بڑے ڈیمز ہیں۔ سندھ میں 127، پنجاب 67 جبکہ خیبر پختونخوا میں 65 چھوٹے بڑے ڈیمز ہیں۔
بلوچستان میں اتنی بڑی تعداد میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا مقصد پانی ذخیرہ کرنا ہے۔ سالہا سال خشک سالی کا شکار رہنے والے صوبے میں پانی کی ضروریات بڑی حد تک انھی چھوٹے ڈیموں کی مدد سے پوری کی جاتی ہیں۔ ان میں عام طور پر بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے جس کا بڑا ذریعہ مون سون کی بارشیں ہیں۔
تاہم بی بی سی کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صوبے کی اہم ترین ضرورت پوری کرنے کے لیے بنائے جانے والے ان ڈیموں میں بڑے پیمانے پر کرپشن اور ان کی تعمیر میں سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال عام ہے۔
صوبے میں ڈیمز کی تجویز اور پی سی ون (ابتدائی پلاننگ) کے وقت بارشوں سے متعلق پیشنگوئی کرنے کے لیے ریسرچ کی جاتی ہے نہ ہی ایسا کوئی نظام موجود ہے جبکہ دیگر صوبوں کے برعکس اتنی بڑی تعداد میں ڈیمز ہونے کے باوجود یہاں ان کے لیے کوئی علیحدہ ادارہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔